واشنگٹن —
ہماری شادی کیا تھی فاطمہ ثریا بجیا کا ٹی وی ڈرامہ تھا ،جس میں بےشمار کردار تھے،شوربھی تھا ، ہنگامہ بھی اور پھر اوپر سے بارش آگئی ایسی دھواں دارکہ لوگ نکاح کے وقت قناتیں پکڑ کر کھڑےرہے۔ورنہ امکان تھا کہ دولھا کی پگڑی کے ساتھ ساتھ نکاح نامہ بھی کہیں ہوا میں اُڑ جاتا۔اور ہم اُس پر دستخط کے لئے پیچھے پیچھے بھاگتے رہتے اور کہاں کے کہاں پہنچ جاتے۔
لیکن، اِس پر ہی بس نہ ہوئی۔ بلکہ، ولیمے والے دِن ایسا شدید طوفان آیا کہ سارے انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے۔
صدر ضیاٴ ا لحق جنھیں اِس میں شرکت کے لئے آنا تھا پشاور کے دورے پر تھے۔اُن کے ہیلی کاپٹرکو راستے میں کسی گاؤں میں اترنا پڑا اور وہ بہت دیر سےپہنچے۔ اور آتے ہی میری والدہ سے کہنے لگے،’ لگتا ہے آپ کے بیٹے نے ہانڈیاں چاٹی ہیں،جبھی سب جل تھل ہو گیا‘۔
اُن کے جانے کے بعد، مہمانوں کا ایک سمندر اُمڈ آیا ،جنھیں سیکیورٹی نے دور دور روکا ہوا تھا۔اُن میں وہ بھی تھے جنھیں بلایا تھا۔ لیکن، زیادہ تر ایسے تھےجو بِن بلائے تھے اور محض ضیاٴالحق کا سن کر چلے آئے۔جیسے ولیمہ نہ ہوا ایک تماشہ ہوا۔
اور بھی دلچسپ واقعات ہیں جِن کو سنانے کےلئے وقت چاہئیے۔ آپکے پاس سننے کا اور میرے پاس لکھنے کا۔بہر حال، جب بھی پانچ اور چھ اپریل آتا ہے۔سب یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔
پانچ اپریل 1982ءکو ہماری شادی تھی، جب رفتہ رفتہ، منزہ بیگم ، منزہ برلاس سے منزہ خالد ہوئیں اور پھر مونا بن کر ہماری زندگی کا اٹوٹ انگ بن گئیں۔ اور پھر کیسے، ماشا آللہ، اتنے برس بیت گئے۔بچے بڑے ہوگئے۔تعلیم حاصل کر لی۔اور ہمارے قد سے بھی اوپر چلے گئے۔
ہم نے تو بہت سوچ سمجھ کر ایسا موسم رکھا تھا،جب اسلام آباد میں خوشگوار موسم ہواکرتا ہے۔ نہ گرمی نہ سردی۔ بلکہ، بہار کا ساموسم ۔اور بارش کا بھی کوئی امکان نہیں ہوتا۔لیکن، جناب اللہ نے بھی تو اپنی شان دکھانی تھی،جبکہ کوئی پیشگوئی بھی نہ تھی۔
پیشگوئی تو ایسے مہمانوں کی بھی نہیں تھی جِن کا آنا با عث ِعزت اور یادگار ہوگیا۔ وجہ اسکی یہ تھی کہ نہ چاہتے ہوئے بھی اخبار کے ہمارے ساتھی یہ خبر لے اڑے کہ خالد حمید بھی شادی کے بندھن میں بندھ رہے ہیں۔ اوریہ کہ، اِس مرتبہ یہ خبر صحیح ہے ۔کیوں کہ پہلے بھی کئی بار شادی کی جھوٹی خبریں چھپ چکی تھیں ۔ٹی وی کی سکرین پر آنے کا نقصان بھی ہے اور فائدہ بھی۔اِس لئے، یہ سب کچھ تو برداشت کرنا ہی پڑتا ہے۔
اب خبر کے چھپتے ہی پہلی خوشگوار حیرت یہ ہوئی کہ گولڑہ شریف سے ایک صاحب آئے کہ صاحبزادہ صاحب ،آپ کے گھر مبارکباد کے لئے آنا چاہتے ہیں۔اور، وہ کل صبح تشریف لائیں گے۔ٕ
میں بہت خوش اور حیران ہوا اور کہا کہ وہ شادی یا ولیمے میں آئیں تو مسرت ہوگی۔ اُنھوں نے کہا کہ نہیں۔وہ بس حاضری دینا چاہتے ہیں۔میں نے کہا۔بسم ا للہ۔لہٰذا، دوسرے دن صبح کے وقت ایک بڑی گاڑی گھر کے سامنے آکر رکی۔اور میں نے دیکھا کہ اُس میں قابلِ عزت و احترام صوفی بزرگ، سیّد پیر مہر علی شاہ کے خانوادے کےچشم و چراغ، ایک انتہائی باعلم شخصیت،معروف شاعر،صاحبزادہ نصیر الدین نصیر تشریف لائے ہیں۔اُن کے پیچھے خدام تحفے تحائف اٹھائے ہوئے تھے۔اور تحفوں کے علاوہ پھلوں اورپانوں کی ٹوکریاں،اور ایک بڑا دیگچہ پائیوں کا تھا۔جِس کے متعلق اُنھوں نے فرمایا کہ یہ میں خود بنا کر لایا ہوں۔کیونکہ، جِن سے مجھے محبت ہوتی ہے اُن کے لئے میں اپنے ہاتھ سے کوئی چیز بنا کر لاتا ہوں۔
اور، سب سے بڑھ کر جو عطیہ اُنھوں نے دیا وہ اُن کے اپنے خوبصورت اشعار سے مزیّن،سہرا تھا۔جو بعد میں، نکاح کے وقت ٕ،عبید اللہ بیگ مرحوم نےبہت خوبصورت انداز میں پڑھا۔
صاحبزادہ صاحب مرحوم کی اُن لمحوں میں آمد،ہماری آئندہ خوشگوار زندگی کی لئے دعا،میر ے لئےانتہائی باعث برکت اور مبارک لمحات تھے۔
دوسری حیرت انگیز اور ھماکہ خیز آمد صدر ضیاٴالحق کی تھی۔ جِن کے آنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اور ہمارے وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ وہ شرکت کریں گے۔
قصہ یہ تھا کہ ہر23 مارچ کو ضیا صاحب سے ملاقات ہوتی تھی، کیونکہ راولپنڈی کے ریس کورس گراؤنڈ میں سالانہ فوجی پریڈ ہوتی تھی، جِس کی سلامی صدر ضیا لیتے تھے۔ اور ہماری ذمے داری اُس پر براہِ راست گراؤنڈ میں ،رواں تبصرہ کرنا ہوتا تھا۔
پہلے سال ہی اُنھوں نے شاباش دینے کے لئے، ہماری پوری ٹیم کو اپنے گھر پر بلایا اور اُس کے بعد سے یہ معمول بن گیا کہ پریڈ کے فوراً بعد،فوج کے تعلقاتِ عامہ کےاُس وقت کے ادارے کے سربراہ ،بریگیڈیر صدیقی کے ہمراہ صدر صاحب کی شاباش لینے جاتے تھے۔
تو، اُس سال یعنی،1982ء میں ،جب ہم ملنے گئے تو میں نےاُنھیں دعوت نامہ پیش کیا۔اُنھوں نے بہت خوشی کا اظہار کرتے ہوئے، کارڈ اپنے اے ڈی سی کو دیا اور کہا کہ، ’ ہم ائیں گے‘۔
بات آئی گئی ہو گئی۔ہم نے سوچا کہ اُنھوں نے دل رکھنے کو کہہ دیا ہے۔ لیکن، کہاں اُن کو آنے کا وقت ملے گا۔ اُدھر سے بھی کوئی اطلاع نہیں آئی۔ اِس لئے، بھول گئے اور شادی کے ہنگاموں میں گم ہو گئے۔
اب ولیمے کے دن صبح کے وقت ،میں مونا کے ساتھ اپنے نانا اور رشتے کی ایک بزرگ خاتون کوسلام کے لئے نکل گیا ،کیونکہ وہ شادی میں نہیں آسکے تھے۔ ابھی ہم وہاں پہنچے ہی تھے کہ ایک پیغامبر بھاگتا ہوا آیا کہ جلدی واپس آئیں۔صدر صاحب آرہے ہیں۔میں نے کہا، ’ کون سے صدر صاحب؟‘۔اُس نے کہا، ’ ضیاٴ صاحب‘۔میں نے کہا کہ، ’ غلط فہمی ہوئی ہو گی کسی انجمن کے صدر آرہے ہوں گے۔جب اُس نے اصرار کیا، تو ہم واپس گھر پہنچے۔وہاں دیکھا کہ سیکیورٹی کے سربراہ اور اُن کا عملہ بیٹھا ہوا تھا۔
اُنھوں نے سارے انتظامات دیکھے اور ہر طرح اطمینان حاصل کرنے کے بعد ، اپنا خصوصی عملہ وہاں تعینات کرنے کی اجازت حاصل کی۔اُس کے بعد، ہمارے گھر کے چاروں طرف اکھاڑ پچھاڑ شروع ہو گئی۔خصوصی کمانڈوز نے جگہیں سنبھال لیں۔ یہاں تک کہ گھر کے اندر بھی فوجی گھوم رہے تھے۔ لگا کہ مارشل لا آج لگا ہے۔
مہمانوں کی فہرستیں بھی اُنھوں نے قبضے میں لے لیں اور کہا کہ بغیر اجازت کے کوئی اندر نہیں آئےگا۔
لیکن، ایک فائدہ اِس بھاگ دوڑکا یہ ہوا کہ شہر کے دوسرے محکمے بھی حرکت میں آگئے اور گھر کے چاروں اطراف صفائی شروع ہوگئی اور خصوصی لائٹیں لگا دی گئیں، جس سے سارا علاقہ روشن ہو گیا۔جِس کے لئے میں کئی روز سے کوشش کر رہا تھا۔ مگر، کوئی ہِل جُل نہیں تھی۔ اب ایک دم دوڑ شروع ہو گئی۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ ولیمے کی دعوت شام کو تھی جِس کا انتظام باہر لان میں کیا گیا تھا۔ لیکن، حکم یہ ملا کہ صدر صاحب کھانے میں شرکت نہیں کر سکیں گے۔ شام کو جلدی آئیں گے اورکچھ دیر ٹہر کر چلے جائیں گے۔تو کھانے کے سارے انتظامات روک کر چائے اور دوسرے لوازمات کا بندوبست کیا گیا۔
اِس دوران، صدر کے ملٹری سیکریٹری کرنل ظہیر ملک بھی رابطہ کرتے رہے۔میں نے جب اِس افراتفری کی وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ اُن کا عملہ دعوت نامہ کہیں رکھ کر بھول گیا اور ہماری طرح اُنھوں نے بھی یہ سوچا کہ کون سا صدر نے وہاں جانا ہے۔
مگر ، پھر وہی اخبار کی شرارت کہ صبح کے سب اخباروں میں شادی کی بڑی بڑی تصویروں کے ساتھ جب خبر چھپی تو صدر صاحب کی اُس پر نظر پڑی۔فوراٍ، ً اُنھوں نے استفسار کیا کہ اِس شادی میں تو ہمیں شرکت کرنی تھی۔
اب وہاں دعوت نامے کی ڈھونڈ پڑ گئی اور جب کارڈ ملا تو وہ ولیمے کی دعوت تھی۔تو سٹاف کی جان میں جان آئی فوراً بتایا گیا کہ، ’ سر آپ کا بلاوا آج ہےولیمے میں‘۔ لیکن، اُس دِن اُنھیں پشاور کسی ضروری میٹنگ میں جانا تھا اور واپسی میں ڈنر میں شرکت کرنا تھی۔لیکن، اُن کا اصرار تھا کہ میں تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی،مبارکباد کے لئے جاؤں گا ضرور۔
ہمیں اُن کی آمد کا وقت شام پانچ بجے بتایا گیا۔لیکن، جیسا کہ میں نے بتایا کہ لڑکی کی تلاش سے لے کر شادی تک کوئی کام ہمارا آسان نہ تھا۔لہٰذا جناب، شام ہوتے ہی آندھی آگئی اور آندھی کیا تھی طوفان تھاجو پورے اسلام آباد،پنڈی اور پشاور تک کے علاقوں میں آیااور سب تہہ و بالا کر دیا۔ صدر صاحب کا ہیلی کا پٹر پشاور سے واپسی میں راستے میں کہیں اتارنا پڑا،جہاں اُنھوں نے مغرب کی نماز ادا کی۔
ایک بار پھر، اُن کی آمد کے امکانات معدوم ہو گئے اور ہم شش وپنج میں مبتلا ہو گئے۔سیکیورٹی کے باعث ولیمے کے دوسرے انتظامات بھی نہیں کئے جاسکتے تھے اور اوپر سے آندھی اور طوفان نے باقی سب اکھاڑ پھینکا۔لیکن، شاید اُن کا ارادہ مصمم تھا یا ہماری دعائیں تھیں کہ کوئی شام سات بجے کے قریب اطلاع ملی کہ مہمانِ گرامی پہنچنے والے ہیں۔ اور تھوڑی دیر بعد موٹروں کا قافلہ گھر کے سامنے آکر رکا اور صدر صاحب،سفید شیروانی میں ملبوس مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ تشریف لائے تو میری والدہ مرحومہ نے بڑے خوبصورت الفاظ کے ساتھ اُن کا استقبال کیا۔
سب کچھ ٹھیک جا رہا تھاکہ عین صدر صاحب کی آمد سے چند لمحے پہلے،مووی بنانے والے کا کیمرہ اِس گھبراہٹ میں ایسا گرا کہ اُس نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ لہٰذا، ولیمے کی ہمارے پاس کوئی ویڈیو نہیں ہے۔شادی اور مہندی کی ویڈیو ہم نے امریکہ آنے سے پہلے کسی کو دی کہ اسے امریکی سسٹم کے مطابق تبدیل کر دیں۔وہ اُن سے ایسی ضائع ہوئی کہ اب وہ ریکارڈ بھی نہیں ہے۔بس، کچھ تصویریں رہ گئی ہیں جِن میں سے ایک آپ دیکھ سکتے ہیں۔
لیکن، اصل تصویریں اور لمحے ،ذہن پر نقش ہیں ۔کیسے کیسے محبت کرنے والے لوگ اِس میں اپنا خلوص نچھاور کرنے آئے،اور اُن میں سے بہت سے اب اِس دنیا میں نہیں رہے۔
ہم کیسے بھول سکتے ہیں ،عبید اللہ بیگ مرحوم کو جنہوں نے نکاح کے بعد میرا سہرا پڑھااور مونا کے گواہ بنے۔پھر میری والدہ کیسے سایہ کئے ہوئی تھیں۔مونا کے والد مصطفی راہی،جو بیٹی کے گھر سے جانے پر کتنے غمزدہ تھے۔ بھائیوں سے بڑھ کر، محمد عارف مرحوم،جنکی ترجمہ کی ہوئی خبریں کتنے برس تک ہم نے پڑھیں۔اُن کی بیگم ہماری پیاری بھابھی مہندی کی تھالی ہاتھ میں اٹھائے ٹی وی کی مقبول اناؤنسر مرحومہ تطہیر زہرہ،غرض کس کس کو یاد کیجئے کسے بھول جائیے!
میری بہنیں کہتی ہیں یہ ٹی وی والوں کی شادی تھی،جنہوں نے کئی دن تک رنگ جمائے رکھا،اور گھر والے بچارے دور دور تھے۔تمام مرد و خواتین نیوز کاسٹرز،جنکی قیادت حمید اختر اور سلمیٰ بیگ کر رہی تھیں ،ریڈیو،پی آئی اے اور اخباری دنیا کے لوگ،بچپن کے دوست،دور و قریب کے رشتے دار،غرض ایک میلہ تھا،جس میں غریب امیر سب تھے اور سب اپنے آپ کو شادی کا اہم فرد سمجھ رہے تھے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہم دونوں کے والدین کی دعائیں تھیں۔ہماری کسی نیکی کا صلہ یا ہمارے گھر میں مونا کے بھاگوان قدم ،کہ شادی کے آغاز پر ہی ایک صوفی گھرانے کے بزرگ نے خود آکر دعا فرمائی۔لاتعداد لوگوں نے اپنی ٕمحبت کے پھول نچھاور کئے۔اور پھر سربراہِ مملکت نے باوجود اتنی رکاوٹوں کے اور وقت کی قلت کے، ایک بہت ادنیٰ سے فنکار کا مان اور عزت بڑھانے کے لئے بنفسِ نفیس شرکت کر کے،اُن لمحات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یادگار بنا دیا۔
لیکن، اِس پر ہی بس نہ ہوئی۔ بلکہ، ولیمے والے دِن ایسا شدید طوفان آیا کہ سارے انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے۔
صدر ضیاٴ ا لحق جنھیں اِس میں شرکت کے لئے آنا تھا پشاور کے دورے پر تھے۔اُن کے ہیلی کاپٹرکو راستے میں کسی گاؤں میں اترنا پڑا اور وہ بہت دیر سےپہنچے۔ اور آتے ہی میری والدہ سے کہنے لگے،’ لگتا ہے آپ کے بیٹے نے ہانڈیاں چاٹی ہیں،جبھی سب جل تھل ہو گیا‘۔
اُن کے جانے کے بعد، مہمانوں کا ایک سمندر اُمڈ آیا ،جنھیں سیکیورٹی نے دور دور روکا ہوا تھا۔اُن میں وہ بھی تھے جنھیں بلایا تھا۔ لیکن، زیادہ تر ایسے تھےجو بِن بلائے تھے اور محض ضیاٴالحق کا سن کر چلے آئے۔جیسے ولیمہ نہ ہوا ایک تماشہ ہوا۔
اور بھی دلچسپ واقعات ہیں جِن کو سنانے کےلئے وقت چاہئیے۔ آپکے پاس سننے کا اور میرے پاس لکھنے کا۔بہر حال، جب بھی پانچ اور چھ اپریل آتا ہے۔سب یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔
پانچ اپریل 1982ءکو ہماری شادی تھی، جب رفتہ رفتہ، منزہ بیگم ، منزہ برلاس سے منزہ خالد ہوئیں اور پھر مونا بن کر ہماری زندگی کا اٹوٹ انگ بن گئیں۔ اور پھر کیسے، ماشا آللہ، اتنے برس بیت گئے۔بچے بڑے ہوگئے۔تعلیم حاصل کر لی۔اور ہمارے قد سے بھی اوپر چلے گئے۔
ہم نے تو بہت سوچ سمجھ کر ایسا موسم رکھا تھا،جب اسلام آباد میں خوشگوار موسم ہواکرتا ہے۔ نہ گرمی نہ سردی۔ بلکہ، بہار کا ساموسم ۔اور بارش کا بھی کوئی امکان نہیں ہوتا۔لیکن، جناب اللہ نے بھی تو اپنی شان دکھانی تھی،جبکہ کوئی پیشگوئی بھی نہ تھی۔
پیشگوئی تو ایسے مہمانوں کی بھی نہیں تھی جِن کا آنا با عث ِعزت اور یادگار ہوگیا۔ وجہ اسکی یہ تھی کہ نہ چاہتے ہوئے بھی اخبار کے ہمارے ساتھی یہ خبر لے اڑے کہ خالد حمید بھی شادی کے بندھن میں بندھ رہے ہیں۔ اوریہ کہ، اِس مرتبہ یہ خبر صحیح ہے ۔کیوں کہ پہلے بھی کئی بار شادی کی جھوٹی خبریں چھپ چکی تھیں ۔ٹی وی کی سکرین پر آنے کا نقصان بھی ہے اور فائدہ بھی۔اِس لئے، یہ سب کچھ تو برداشت کرنا ہی پڑتا ہے۔
اب خبر کے چھپتے ہی پہلی خوشگوار حیرت یہ ہوئی کہ گولڑہ شریف سے ایک صاحب آئے کہ صاحبزادہ صاحب ،آپ کے گھر مبارکباد کے لئے آنا چاہتے ہیں۔اور، وہ کل صبح تشریف لائیں گے۔ٕ
میں بہت خوش اور حیران ہوا اور کہا کہ وہ شادی یا ولیمے میں آئیں تو مسرت ہوگی۔ اُنھوں نے کہا کہ نہیں۔وہ بس حاضری دینا چاہتے ہیں۔میں نے کہا۔بسم ا للہ۔لہٰذا، دوسرے دن صبح کے وقت ایک بڑی گاڑی گھر کے سامنے آکر رکی۔اور میں نے دیکھا کہ اُس میں قابلِ عزت و احترام صوفی بزرگ، سیّد پیر مہر علی شاہ کے خانوادے کےچشم و چراغ، ایک انتہائی باعلم شخصیت،معروف شاعر،صاحبزادہ نصیر الدین نصیر تشریف لائے ہیں۔اُن کے پیچھے خدام تحفے تحائف اٹھائے ہوئے تھے۔اور تحفوں کے علاوہ پھلوں اورپانوں کی ٹوکریاں،اور ایک بڑا دیگچہ پائیوں کا تھا۔جِس کے متعلق اُنھوں نے فرمایا کہ یہ میں خود بنا کر لایا ہوں۔کیونکہ، جِن سے مجھے محبت ہوتی ہے اُن کے لئے میں اپنے ہاتھ سے کوئی چیز بنا کر لاتا ہوں۔
اور، سب سے بڑھ کر جو عطیہ اُنھوں نے دیا وہ اُن کے اپنے خوبصورت اشعار سے مزیّن،سہرا تھا۔جو بعد میں، نکاح کے وقت ٕ،عبید اللہ بیگ مرحوم نےبہت خوبصورت انداز میں پڑھا۔
صاحبزادہ صاحب مرحوم کی اُن لمحوں میں آمد،ہماری آئندہ خوشگوار زندگی کی لئے دعا،میر ے لئےانتہائی باعث برکت اور مبارک لمحات تھے۔
دوسری حیرت انگیز اور ھماکہ خیز آمد صدر ضیاٴالحق کی تھی۔ جِن کے آنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اور ہمارے وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ وہ شرکت کریں گے۔
قصہ یہ تھا کہ ہر23 مارچ کو ضیا صاحب سے ملاقات ہوتی تھی، کیونکہ راولپنڈی کے ریس کورس گراؤنڈ میں سالانہ فوجی پریڈ ہوتی تھی، جِس کی سلامی صدر ضیا لیتے تھے۔ اور ہماری ذمے داری اُس پر براہِ راست گراؤنڈ میں ،رواں تبصرہ کرنا ہوتا تھا۔
پہلے سال ہی اُنھوں نے شاباش دینے کے لئے، ہماری پوری ٹیم کو اپنے گھر پر بلایا اور اُس کے بعد سے یہ معمول بن گیا کہ پریڈ کے فوراً بعد،فوج کے تعلقاتِ عامہ کےاُس وقت کے ادارے کے سربراہ ،بریگیڈیر صدیقی کے ہمراہ صدر صاحب کی شاباش لینے جاتے تھے۔
تو، اُس سال یعنی،1982ء میں ،جب ہم ملنے گئے تو میں نےاُنھیں دعوت نامہ پیش کیا۔اُنھوں نے بہت خوشی کا اظہار کرتے ہوئے، کارڈ اپنے اے ڈی سی کو دیا اور کہا کہ، ’ ہم ائیں گے‘۔
بات آئی گئی ہو گئی۔ہم نے سوچا کہ اُنھوں نے دل رکھنے کو کہہ دیا ہے۔ لیکن، کہاں اُن کو آنے کا وقت ملے گا۔ اُدھر سے بھی کوئی اطلاع نہیں آئی۔ اِس لئے، بھول گئے اور شادی کے ہنگاموں میں گم ہو گئے۔
اب ولیمے کے دن صبح کے وقت ،میں مونا کے ساتھ اپنے نانا اور رشتے کی ایک بزرگ خاتون کوسلام کے لئے نکل گیا ،کیونکہ وہ شادی میں نہیں آسکے تھے۔ ابھی ہم وہاں پہنچے ہی تھے کہ ایک پیغامبر بھاگتا ہوا آیا کہ جلدی واپس آئیں۔صدر صاحب آرہے ہیں۔میں نے کہا، ’ کون سے صدر صاحب؟‘۔اُس نے کہا، ’ ضیاٴ صاحب‘۔میں نے کہا کہ، ’ غلط فہمی ہوئی ہو گی کسی انجمن کے صدر آرہے ہوں گے۔جب اُس نے اصرار کیا، تو ہم واپس گھر پہنچے۔وہاں دیکھا کہ سیکیورٹی کے سربراہ اور اُن کا عملہ بیٹھا ہوا تھا۔
اُنھوں نے سارے انتظامات دیکھے اور ہر طرح اطمینان حاصل کرنے کے بعد ، اپنا خصوصی عملہ وہاں تعینات کرنے کی اجازت حاصل کی۔اُس کے بعد، ہمارے گھر کے چاروں طرف اکھاڑ پچھاڑ شروع ہو گئی۔خصوصی کمانڈوز نے جگہیں سنبھال لیں۔ یہاں تک کہ گھر کے اندر بھی فوجی گھوم رہے تھے۔ لگا کہ مارشل لا آج لگا ہے۔
مہمانوں کی فہرستیں بھی اُنھوں نے قبضے میں لے لیں اور کہا کہ بغیر اجازت کے کوئی اندر نہیں آئےگا۔
لیکن، ایک فائدہ اِس بھاگ دوڑکا یہ ہوا کہ شہر کے دوسرے محکمے بھی حرکت میں آگئے اور گھر کے چاروں اطراف صفائی شروع ہوگئی اور خصوصی لائٹیں لگا دی گئیں، جس سے سارا علاقہ روشن ہو گیا۔جِس کے لئے میں کئی روز سے کوشش کر رہا تھا۔ مگر، کوئی ہِل جُل نہیں تھی۔ اب ایک دم دوڑ شروع ہو گئی۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ ولیمے کی دعوت شام کو تھی جِس کا انتظام باہر لان میں کیا گیا تھا۔ لیکن، حکم یہ ملا کہ صدر صاحب کھانے میں شرکت نہیں کر سکیں گے۔ شام کو جلدی آئیں گے اورکچھ دیر ٹہر کر چلے جائیں گے۔تو کھانے کے سارے انتظامات روک کر چائے اور دوسرے لوازمات کا بندوبست کیا گیا۔
اِس دوران، صدر کے ملٹری سیکریٹری کرنل ظہیر ملک بھی رابطہ کرتے رہے۔میں نے جب اِس افراتفری کی وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ اُن کا عملہ دعوت نامہ کہیں رکھ کر بھول گیا اور ہماری طرح اُنھوں نے بھی یہ سوچا کہ کون سا صدر نے وہاں جانا ہے۔
مگر ، پھر وہی اخبار کی شرارت کہ صبح کے سب اخباروں میں شادی کی بڑی بڑی تصویروں کے ساتھ جب خبر چھپی تو صدر صاحب کی اُس پر نظر پڑی۔فوراٍ، ً اُنھوں نے استفسار کیا کہ اِس شادی میں تو ہمیں شرکت کرنی تھی۔
اب وہاں دعوت نامے کی ڈھونڈ پڑ گئی اور جب کارڈ ملا تو وہ ولیمے کی دعوت تھی۔تو سٹاف کی جان میں جان آئی فوراً بتایا گیا کہ، ’ سر آپ کا بلاوا آج ہےولیمے میں‘۔ لیکن، اُس دِن اُنھیں پشاور کسی ضروری میٹنگ میں جانا تھا اور واپسی میں ڈنر میں شرکت کرنا تھی۔لیکن، اُن کا اصرار تھا کہ میں تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی،مبارکباد کے لئے جاؤں گا ضرور۔
ہمیں اُن کی آمد کا وقت شام پانچ بجے بتایا گیا۔لیکن، جیسا کہ میں نے بتایا کہ لڑکی کی تلاش سے لے کر شادی تک کوئی کام ہمارا آسان نہ تھا۔لہٰذا جناب، شام ہوتے ہی آندھی آگئی اور آندھی کیا تھی طوفان تھاجو پورے اسلام آباد،پنڈی اور پشاور تک کے علاقوں میں آیااور سب تہہ و بالا کر دیا۔ صدر صاحب کا ہیلی کا پٹر پشاور سے واپسی میں راستے میں کہیں اتارنا پڑا،جہاں اُنھوں نے مغرب کی نماز ادا کی۔
ایک بار پھر، اُن کی آمد کے امکانات معدوم ہو گئے اور ہم شش وپنج میں مبتلا ہو گئے۔سیکیورٹی کے باعث ولیمے کے دوسرے انتظامات بھی نہیں کئے جاسکتے تھے اور اوپر سے آندھی اور طوفان نے باقی سب اکھاڑ پھینکا۔لیکن، شاید اُن کا ارادہ مصمم تھا یا ہماری دعائیں تھیں کہ کوئی شام سات بجے کے قریب اطلاع ملی کہ مہمانِ گرامی پہنچنے والے ہیں۔ اور تھوڑی دیر بعد موٹروں کا قافلہ گھر کے سامنے آکر رکا اور صدر صاحب،سفید شیروانی میں ملبوس مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ تشریف لائے تو میری والدہ مرحومہ نے بڑے خوبصورت الفاظ کے ساتھ اُن کا استقبال کیا۔
سب کچھ ٹھیک جا رہا تھاکہ عین صدر صاحب کی آمد سے چند لمحے پہلے،مووی بنانے والے کا کیمرہ اِس گھبراہٹ میں ایسا گرا کہ اُس نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ لہٰذا، ولیمے کی ہمارے پاس کوئی ویڈیو نہیں ہے۔شادی اور مہندی کی ویڈیو ہم نے امریکہ آنے سے پہلے کسی کو دی کہ اسے امریکی سسٹم کے مطابق تبدیل کر دیں۔وہ اُن سے ایسی ضائع ہوئی کہ اب وہ ریکارڈ بھی نہیں ہے۔بس، کچھ تصویریں رہ گئی ہیں جِن میں سے ایک آپ دیکھ سکتے ہیں۔
لیکن، اصل تصویریں اور لمحے ،ذہن پر نقش ہیں ۔کیسے کیسے محبت کرنے والے لوگ اِس میں اپنا خلوص نچھاور کرنے آئے،اور اُن میں سے بہت سے اب اِس دنیا میں نہیں رہے۔
ہم کیسے بھول سکتے ہیں ،عبید اللہ بیگ مرحوم کو جنہوں نے نکاح کے بعد میرا سہرا پڑھااور مونا کے گواہ بنے۔پھر میری والدہ کیسے سایہ کئے ہوئی تھیں۔مونا کے والد مصطفی راہی،جو بیٹی کے گھر سے جانے پر کتنے غمزدہ تھے۔ بھائیوں سے بڑھ کر، محمد عارف مرحوم،جنکی ترجمہ کی ہوئی خبریں کتنے برس تک ہم نے پڑھیں۔اُن کی بیگم ہماری پیاری بھابھی مہندی کی تھالی ہاتھ میں اٹھائے ٹی وی کی مقبول اناؤنسر مرحومہ تطہیر زہرہ،غرض کس کس کو یاد کیجئے کسے بھول جائیے!
میری بہنیں کہتی ہیں یہ ٹی وی والوں کی شادی تھی،جنہوں نے کئی دن تک رنگ جمائے رکھا،اور گھر والے بچارے دور دور تھے۔تمام مرد و خواتین نیوز کاسٹرز،جنکی قیادت حمید اختر اور سلمیٰ بیگ کر رہی تھیں ،ریڈیو،پی آئی اے اور اخباری دنیا کے لوگ،بچپن کے دوست،دور و قریب کے رشتے دار،غرض ایک میلہ تھا،جس میں غریب امیر سب تھے اور سب اپنے آپ کو شادی کا اہم فرد سمجھ رہے تھے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہم دونوں کے والدین کی دعائیں تھیں۔ہماری کسی نیکی کا صلہ یا ہمارے گھر میں مونا کے بھاگوان قدم ،کہ شادی کے آغاز پر ہی ایک صوفی گھرانے کے بزرگ نے خود آکر دعا فرمائی۔لاتعداد لوگوں نے اپنی ٕمحبت کے پھول نچھاور کئے۔اور پھر سربراہِ مملکت نے باوجود اتنی رکاوٹوں کے اور وقت کی قلت کے، ایک بہت ادنیٰ سے فنکار کا مان اور عزت بڑھانے کے لئے بنفسِ نفیس شرکت کر کے،اُن لمحات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یادگار بنا دیا۔