رسائی کے لنکس

لاھور کی نیرنگ گیلریز


لاھور کی نیرنگ گیلریز
لاھور کی نیرنگ گیلریز

معروف ماہرِ تعمیرات نیر علی دادا نے فنِ تعمیر، مصوری اور موسیقی کے فروغ کی غرض سے یہ گیلریز قائم کی تھیں مگر اب ادیبوں اور شاعروں سے بھی ان گیلریز کا گہرا تعلق قائم ہوچکا ہے

لاھور کی نیرنگ گیلریز کہنے کو تو آرٹ گیلریز ہیں مگر اصل میں اپنے اندر ثقافت کے حوالے سے ان گیلریز نے بہت کچھ سمو رکھا ہے۔ فن ِ تعمیر ہو، موسیقی ہو، مصوری ہو، کتب یا رسائل ہوں یا پھر چائے کافی وغیرہ کی سہولت ہو سب کچھ یہاں موجود ہے۔ اور تو اور چند برس پہلے ادیبوں، شاعروں سے اُن کا آخری اڈا، پاک ٹی ہاؤس جب چھن گیا تو لاھور کے معروف ماہرِ تعمیرات اور نیرنگ گیلریز کے بانی نیر علی دادا نے شہر کے دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں کو دعوت دی کہ وہ نیرنگ گیلریز کو اپنا مسکن بنائیں تو انہیں بہت خوشی ہوگی۔

لاھور کی کینال بینک روڈ اور جیل روڈ کے سنگم پر واقع نیرنگ گیلریز کے بارے میں نیر علی دادا کا کہنا ہے کہ انہوں نے ان گیلریز کو فنِ تعمیر، فن مصوری اور فن موسیقی کے فروغ کے لیے قائم کیا تھا لیکن اگر ادیب شاعر اور دانشور بھی یہاں آنے لگیں گے تو یہ سونے پر سہاگے والی بات ہوگی۔

نیرنگ گیلریز کے مینجر شاہد ملک نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہاں ادیب اور شاعر اس طرح تو نہیں آتے جیسے وہ پاک ٹی ہاؤس میں آتے تھے مگر اکثر شام کے وقت گیلریز کے ریسٹورنٹ میں اُن کے بقول ایک دو میزوں پر معروف ادیب اور شاعر دیکھے جاسکتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ انتظار حسین اکثر یہاں آتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں شاہد ملک نے بتایا کہ نیرنگ گیلریز میں ثقافت کے حوالے سے بہت کچھ موجود ہے۔ مصوروں کے فن پاروں کی نمائشیں باقاعدگی سے ہوتی ہیں اور اُنہوں نے موسیقی کے نامور فنکاروں کی ایسی ریکارڈنگز بھی یہاں محفوظ کررکھی ہیں جو عام دوکانوں پر دستیاب نہیں ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ نیرنگ گیلریز میں گاہے گاہے موسیقی کے پروگرام بھی ہوتے ہیں جن میں بڑی تعداد میں صاحبِ ذوق خواتین و حضرات شرکت کرتے ہیں۔ یہاں موجود فنکاروں کی نادر ریکارڈنگز کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں شاہد ملک نے کہا کہ اگر کوئی ریکارڈنگ طلب کرے تو یہ سہولت موجود ہے کہ معمولی رقم لے کر اس ریکارڈنگ کی سی ڈی پر نقل فراہم کردی جائے۔

اُن کا کہنا تھا کہ نیرنگ گیلریز میں نادر کتابیں اور نئی کتابیں بھی موجود ہیں۔ کتابوں کی تعداد تو اتنی زیادہ نہیں ہے مگر اُن کے بقول کوشش یہ کی جاتی ہے کہ یہاں ادب، ثقافت، اور آرٹ سے متعلق زیادہ سے زیادہ متنوع مواد موجود رہے۔

واضح رہے کہ لاھور کی نیرنگ گیلریز کا ریسٹورنٹ نوجوانوں میں خاص طور پر مقبول ہے۔ یہاں موجود لاھور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے طالبعلم یونس خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس ریسٹورنٹ کا ماحول اُنہیں اور اُن کے دوستوں کو بہت پسند ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اپنے کلاس فیلو لڑکے، لڑکیوں کے ہمراہ جس طرح آزادی سے اس ریسٹورنٹ میں وہ بیٹھ سکتے ہیں پورے شہر میں اور کہیں اُنہیں ایسا ماحول میسر نہیں ہے۔

یونس خان کا خیال تھا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں بےپناہ ترقی ہوچکی ہے اور اب ثقافتی حوالے سے نیرنگ گیلریز جیسے مقامات ہی مستقبل میں کامیاب ہونگے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُن کے چچا، لاھور کےکافی ہاؤس اور پاک ٹی ہاؤس وغیرہ کو بہت یاد کرتے ہیں اور اُس دور کی ادبی محفلوں کا بڑی محبت سے ذکر کرتے ہیں۔ تاہم یونس خان کے بقول زمانہ بہت بدل چکا ہے اور اب پیچھے کی طرف جانا ممکن نہیں ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اُن کے دوستوں نے تو نیرنگ گیلریز کی انتظامیہ کو تجویز کیا ہے کہ یہاں انٹرنیٹ کی سہولت بھی رکھیں۔

شاہد ملک نے بتایا کہ اُن کے دفتر میں تو انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے تاہم مزید وسعت دینے سے متعلق فیصلہ گیلریز کی انتظامیہ ہی کرسکتی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ نوجوان لڑکے لڑکیاں ہوں، ادیب، شاعر، دانشور ہوں یا پھر مصور، سب نیرنگ گیلریز کو ایک ثقافتی مرکز سمجھتے ہیں اور یہ کہ غیر ممالک سے آئے مہمان ان گیلریز کا آزاد ماحول دیکھ کر دَنگ رہ جاتے ہیں۔

اُن کے بقول ایک غیر ملکی مہمان کا کہنا تھا کہ وہ واپس جاکر اپنے ملک میں جب یہ بتائیں کہ پاکستان میں ایسے آزاد ثقافتی ماحول کی حامل جگہ موجود ہے تو ممکن ہے وہاں لوگ اُن کی بات پر یقین ہی نہ کریں۔

XS
SM
MD
LG