رسائی کے لنکس

ملالہ کی دو بہادر سہیلیاں: کائنات اور شازیہ


دونوں کے ساتھ ایک خوشگوار نشست سے یہ امید مزید پختہ ہوئی کہ پاکستان میں ملالہ نےتعلیم سے محرروم بچیوں کے لئے جِس جدجہد کی بنیاد ڈالی، اسکی کامیابی کو شازیہ اور کائنات جیسی ہزاروں بچیوں نے اٹل بنا دیا ہے

نو اکتوبر 2012 ء، یعنی آج سےٹھیک ایک سال پہلے، سوات کی ملالہ یوسفزئی کے ہاتھوں سے اسکول کی وہ کتابیں نیچے گرادی گئیں جسکو تھامے رکھنے کے لیے 15 سالہ ملالہ نے بےخوف و خطر ایک ایسی وادی میں اپنی جدوجہد جاری رکھی جہاں کی گلیوں میں آج بھی لوگ سہمے ہوۓ نظر آتے ہیں۔

طالبان کی جانب سے بچیوں کی تعلیم پر پابندی کے خلاف ملالہ یوسفزئی نے بلاگز کے ذریعے اپنی جدوجہد کا جو علم بلند کیا آج اُسی کو تھامے ملالہ نے اپنی کتاب ’آئی ایم ملالہ‘ کی رونمائی کی۔

عالمی ذرائع ابلاغ میں آج ایک بار پھر ملالہ یوسفزئی سےجڑی ہیڈ لائنز نے امید کا احساس تو ضرور دلایا، لیکن ساتھ ہی ملالہ پر ہونے والے حملے میں شدید زخمی ہونے والی اُن کی دو سہیلیوں کا خیال آیا جو بھی اسی کرب سے گزریں جس سے کہ ملالہ خود ۔ چند روز قبل، شازیہ رمضان اور کائنات ریاض کے ساتھ انکے اسکول میں دن گزارنے کا موقع ملا اور دونوں کی معصومانہ اور پُرامید باتیں رقم کیۓ بغیر نہیں رہ سکا۔

شازیہ اور کائنات اب دونوں برطانیہ میں مقیم ہیں اور اسکالرشپ پر تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ دونوں کے ساتھ ایک خوشگوار نشست سے یہ امید مزید پختہ ہوئی کہ پاکستان میں ملالہ نےتعلیم سےمحرروم بچیوں کے لئے جِس جدجہد کی بنیاد ڈالی، اسکی کامیابی کو شازیہ اور کائنات جیسی ہزاروں بچیوں نے اٹل بنا دیا ہے۔

جنت نظیر وادی سوات کی طرح برطانیہ میں بھی شازیہ اور کائنات کا اسکول انکے عزم کی طرح بلندو بالا چوٹیوں اور گھنے درختوں کے سایے تلے خنکی کا احساس دلانے والی ایک تاریخی عمارت میں واقع ہے۔ فرق ہے تو صرف اتنا کہ کائنات ریاض اپنی ماں اور دادی کا ذکر کرتے ہوۓ افسردہ سی ہو جاتی ہے۔ لیکن، پھر اچانک اپنے والد کی نصیحت کو یاد کرتے ہوۓ کہتی ہیں: ’نہیں۔ جس مقصد کے لئے ہم سب نے اپنے خون کی قربانی دی وہ پورا کیۓ بغیر ہی واپس سوات چلی جاؤں تو ہمارے والدین ہم پر کیسےفخر کر سکیں گے‘۔

کائنات ڈاکٹر بن کر ان بچوں کا علاج کریں گی، جِن کے والدین کےپاس ڈاکٹروں کی فیس تک نہیں ہوتی۔

ذرا سخت لہجے میں کائنات بولی، ’لیکن، میں ایک ایسی ڈاکٹر ہوں گی جو مریضوں کے علاج کے ساتھ ساتھ ان والدین کا بھی علاج کروں گی، جو اپنی بچیوں کو اسکول جانے سے روکتے ہیں۔ ‘ میں نے ہلکی سی مسکراہٹ سے کائنات کے عزم کی داد دینے کی کوشش کی، جسکو جانچتے ہی، کائنات نے شکریہ ادا کرنے میں دیر نہیں لگائی۔


شازیہ رمضان سے میری پہلی ملاقات ملالہ یوسفزئی کے گھر برمنگھم میں اس وقت ہوئی جب وہ ملالہ کے ساتھ چپک کر ڈرائنگ روم کے ایک کونے میں سہمی ہوئی بیٹھی تھی۔ شازیہ کا برطانیہ میں وہ پہلا دن تھا۔ لیکن، آج دوسری ملاقات میں دوران گفتگو فر فر انگریزی بولتی شازیہ نےمجھے خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا۔ صرف چند ہی ماہ میں شازیہ کو بلند آواز اور نسبتاً سخت لہجے میں یہ کہتے سنا کہ، ’سیاست دان بن کر میں سوات کی ان بچیوں کو اسکول تک خود چھوڑنے جاؤں گی، جنکے والدین آج بھی اس سوچ کے مالک ہیں کہ لڑکی کو تب تک گھر میں قید کیۓ رکھو جب تک اس کی شادی نہیں ہو جاتی۔‘

اب بغیر تعلیم کے یہ لڑکیاں اپنی آئندہ نسلوں کو کیا تعلیم دیں گی؟ مجھے ایسے لگا جیسے میرے سامنے بیٹھی سوات کی دو بہادر بچیاں یہ سوال پورے پاکستان سے کر رہی ہیں کہ ہماری اتنی بڑی قربانی کے بعد بھی کیا اب بھی ایسے والدین ہوں گے جو کہ بچیوں کو اسکول جانے سے روکیں گے.

لیکن، جواب کائنات نے خود ہی دے دیا: ’پاکستانی معاشرے میں مثبت تبدیلی شروع ہو چکی ہے، لیکن اس میں وقت تو ضرور لگے گا ہی۔‘


شازیہ اور کائنات کے ہر سوال کا جواب صرف ایک ہی پہلو پر مرکوز ہوتا کہ تعلیم کے بغیر ایک کامیاب زندگی گزارنا ممکن ہی نہیں اور یہ کہ اب پاکستانی معاشرے میں بچوں اور بچیوں میں موجود فرق کو ختم کرنا ہو گا۔

ساری دنیا کی توجہ ملالہ پر مرکوز ہے۔ سماجی میڈیا پر شازیہ اور کائنات کو کم توجہ دینے پر تواتر سے سوالات اٹھاۓ گی۔ لیکن، ملالہ کی بہادر سہیلیوں کے الفاظ میں، ’ملالہ کو ملنے والا ہر ایوارڈ نہ صرف انکے بلکہ پورے پاکستان کے لئے فخر اور رشک کا مقام ہے۔

کائنات اپنی کلاس سے فارغ ہو چکی ہے۔ لیکن، اسکے ہوم ورک کا ٹائم ہو گیا ہے، جبکہ شازیہ بار بار اپنی گھڑی کو بے چینی سے دیکھ رہی ہے کہ اسکی اگلی کلاس کے وقت میں چند ہی منٹ باقی رہ گۓ ہیں۔

شازیہ کی کلاس کی طرف چہل قدمی کرتے ہوۓ میں نے دونوں کو یاد دلایا کہ 11 اکتوبر کو سال 2013 ءکے ’نوبیل پیس پرائز‘ کے فاتح خوش نصیب کا اعلان کیا جانا ہے۔ تو کائنات جھٹ سے بولی، ’انشا اللہ۔ ملالہ نوبیل پیس پرائز جیت کر پاکستان کا نام اور بھی روشن کرے گی۔‘

سردی کی شدت اور کلاس میں تاخیر سے پہنچنے کے ڈر سے سہمی کائنات بھی جھٹ سے بولی۔ ’انشااللہ‘۔
XS
SM
MD
LG