رسائی کے لنکس

ضیا محی الدین کی یادیں: جب فیلڈر کی اپیل پر بلے باز پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا


کئی شاہ کار فن پاروں کو آواز دینے والے ضیا محی الدین نے خود بھی ایک زمانے میں ایک ناول لکھا جس کا عنوان ’اَن رئیل سٹی‘ جو انگریزی کے ممتاز شاعر ٹی ایس ایلیٹ کی ایک نظم سے ماخوذ تھا۔

اس ناول کا مسودہ انہوں نے ایک ایسے ٹرنک میں رکھ چھوڑا تھا جس میں ان کا کرکٹ کھیلنے کا سامان بھی رکھا تھا۔ یہ ٹرنک بعد میں گم ہو گیا۔ بظاہر یہ ایک معمولی سا واقعہ ہے لیکن اس کی حیثیت ایک علامت کی ہے کہ کس طرح ادب اور کرکٹ کا شوق ان کی زندگی میں ساتھ ساتھ چلتے رہے۔

ضیا محی الدین کی یادداشتوں پر ایک نظر ڈالی جائے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ادب، اداکاری، کرکٹ اور موسیقی ان کے عشق تھے۔

موسیقی، ادب اور اداکاری سے عشق انہیں اپنے والد سے وراثت میں ملا تھا۔ ان کے والد خادم محی الدین انگریزی کے استاد تھے اور ساتھ ہی وہ جز وقتی طور پر تھیٹر کے لیے بھی لکھتے تھے۔انگریزی ادب اور فنِ اداکاری کے رموز سے گہری آگاہی تدریس اور تھیٹر سے ان کی وابستگی کی دین تھی۔ موسیقی سے لگاؤ کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اس فن کی باقاعدہ مہارت حاصل کی تھی۔

ضیا محی الدین اپنے والد سے متعلق اپنی یادداشتوں ’اے کیرٹ از کیرٹ‘ اور ’دی گوڈ آف مائی آئیڈلٹری‘ میں لکھتے ہیں کہ ان کے والد موسیقی کے ماہر تھے۔ ایسے ماہر جو ریاضت کے اُصولوں پر موسیقی کا باقاعدہ فن کے طور پر مطالعہ کرنا جانتے تھے۔

ضیا محی الدین کے خاندان کا تعلق قصور سے تھا۔ ان کے والد خادم محی الدین کو بچپن ہی سے موسیقی سے لگاؤ تھا اور وہ قصور میں موسیقار گھرانوں کے ڈیروں پر یہ فن سیکھنے جاتے تھے۔

ضیا محی الدین کے دادا قصور میں مقامی مجسٹریٹ تھے۔ انہیں بیٹے کی ان سرگرمیوں کا علم ہو گیا اور انہوں نے اپنے بیٹے کے موسیقی سیکھنے پر پابندی لگادی۔لیکن ان کا یہ شوق ختم نہیں ہوا۔ اپنی تعلیم اور ملازمت کے دوران بھی خادم محی الدین نے موسیقی اور اس کے اساتذہ سے اپنا رشتہ برقرار رکھا۔

ضیا محی الدین کے والد نے طبلہ بجانا سیکھا لیکن ضیا محی الدین کے مطابق ان کی اصل مہارت دلربا نامی ساز بجانے میں تھی۔ پاکستان میں اس کے جاننےو الے اب کم ہی ہیں۔

موسیقی کی سمجھ پیدا کرنے کے لیے ان کے والد نے کئی سنگیت سمراٹوں اور اساتذہ سے تربیت حاصل کی۔ ضیا محی الدین لکھتے ہیں کہ ان کے والد برصغیر میں موسیقی کے بڑے مرکز پٹیالہ گئے تو انہیں بھی ساتھ لے گئے۔ اس وقت ان کی عمر صرف سات برس تھی جب وہ اپنے والد کے ساتھ استاد عبدالعزیز بین کار سے ملے۔

ایک اور جگہ وہ لکھتے ہیں کہ سردیوں کی شاموں میں جب ان کے والد ریڈیو پر گنگو بائی ہنگل کو سننے میں محو ہوتے تھے اور وہ ان کے پاس جاتے تو وہ ان کا سر اپنی گود میں رکھ کر سہلاتے رہتے۔ کبھی طبلہ بجاتے ہوئے ننھے ضیا محی الدین کے سامنے رکھ دیتے اور اپنے بیٹے کو بے ہنگم تھاپ لگاتے دیکھ کرخوش ہوتے۔

ان کے والد کی طبلے کے مایہ ناز استاد ملنگ خان سے بھی نیاز مندی تھی۔ استاد اللہ رکھا جیسے اساتذہ بھی استاد ملنگ خان سے تعلق کی وجہ سے ان کے والد کا بہت احترام کرتے تھے۔

ضیامحی الدین کے والد نے قیامِ پاکستان سے قبل پنجاب یونیورسٹی کے نصاب میں موسیقی کو بطور مضمون بھی شامل کرایا تھا۔اس کے لیے انہوں نے باقاعدہ نصاب مرتب کیا اور دو جلدوں پر مبنی ’راگ سکھشا‘ نامی کتاب لکھی۔ بعد ازاں پنجاب یونیورسٹی میں موسیقی کی تعلیم ختم کردی گئی جس کی بحالی کے لیے ان کے والد نے بہت تگ و دو کی۔

ضیا محی الدین کو اس بات کا افسوس تھا کہ ان کے والد کی موسیقی پر لکھی کتاب پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری میں محفوظ نہیں رکھی گئی۔

راگوں کے فارسی نام

پنجاب یونیورسٹی سے موسیقی کا شعبہ ختم ہونے کے بعد ریڈیو میں بھی موسیقی سے متعلق احکام جاری ہوئے کہ’شیو رنجنی‘ اور ’سروستی‘ جیسے غیر اسلامی ناموں والے راگوں پر پابندی عائد کی جائے۔

ضیا محی الدین لکھتے ہیں کہ وہ اس وقت ریڈیو پاکستان سے وابستہ تھے اور معروف شاعر ن م راشد کے ساتھ ریڈیو پاکستان لاہور میں موجود تھے کہ ایک پروڈیوسر نے آکر ن م راشد سے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ راگوں کو ان کے موڈ کے حساب سے فارسی نام دے دیے جائیں۔

یہ سن کر ن م راشد نے اپنا چشمہ اتار کر پروڈیوسر کو دیکھ گمبھیر آواز میں کہا: ’تم فٹ پاتھ پر لوگوں کی حجامت بنایا کرو۔‘‘

یہ سن کر وہ پروڈیوسر تو گھبرا کر وہاں سے روانہ ہوگئے اور کمرے میں قہقہے گونجنے لگے۔ اس کے بعد راشد صاحب نے راگوں کے فارسی میں کچھ خوب صورت نام بھی دیے؛ جیسے راگ ’مدھوونتی‘ کو ’مۓ انگبین‘، راگ ’للت‘ کو ’خوب رو‘، اور ’گُن کلی‘ کو ’برگِ ہنر‘ کا نام دیا۔

وہ لکھتے ہیں کہ اس دور میں ریڈیو کے ذوالفقار علی بخاری کے حکم پر ہر کمپوزیشن راگ ایمن میں ہونے لگی کیوں کہ اس کا نام فارسی تھا۔ لیکن کوئی گانے والا یہ بتانے کی جرات نہیں کرپاتا تھا کہ جس ٹھاٹ اور چال میں یہ راگ گایا جارہا ہے وہ دراصل ’راگ یمن‘ ہی ہے جو ہزاروں برس سے ہندوستان میں گایا جارہا ہے اور غالباً اتنا ہی قدیم ہے جتنے ہندو شاستر۔

ادب، کرکٹ اور تھیٹر

ضیا محی الدین نے لاہور کی معروف درس گاہ گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی جس کے بعد پہلے آسٹریلیا اور پھر اداکاری کی تربیت کے لیے لندن کا رُخ کیا۔

آسٹریلیا میں وہ اپنی جمی جمائی نوکری چھوڑ کر اداکاری کی تربیت کے لیے رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹس آگئے۔ انہوں نے 1953 سے 1956 تک اداکاری کی باقاعدہ تربیت حاصل کی۔اس کے بعد انہوں نے لندن ہی میں تھیٹر کی اداکاری کا باقاعدہ آغاز کردیا۔لیکن اس پورے عرصے میں ان کا کرکٹ سے تعلق نہیں ٹوٹا۔

یہ شوق انہیں بچپن سے تھا اور جب ایک مرتبہ دوران تعلیم ان کے ریاضی میں صفر نمبر آئے تو ان کے والد نے ان کے کرکٹ کھیلنے پر پابندی لگا دی تھی۔

ضیا محی الدین کا تعلق گورنمنٹ کالج لاہور سے تھا اور اس دور میں لاہور ہی کے اسلامیہ کالج کی کرکٹ ٹیم کے ساتھ اس کے دھواں دار مقابلے بھی ہوتے تھے۔ ان مقابلوں پر ضیا محی الدین نے ’گورنمنٹ کالج اور اسلامیہ کالج کے کرکٹ دنگل کی کہانی‘ کے عنوان سے ایک مضمون بھی لکھا تھا۔

اپنی یادداشتوں ’کیرٹ از کیرٹ‘ میں وہ لکھتے ہیں کہ لندن میں قیام کے دوران پولیس الیون کی ٹیم کے خلاف 64 رن بنا کر اپنا مقام بنا چکے تھے۔ وہ لندن میں اسٹیج الیون کی جانب سے کھیلتے تھے۔ یہ اکثر کسی فلاحی کام کے لیے عطیات جمع کرنے کی خاطر ہونے والے چیرٹی میچز ہوتے تھے۔

وہ لکھتے ہیں کہ 50ء اور 60ء کی دہائی میں برطانیہ کے زیادہ تر اداکار کرکٹ کے دل دادہ تھے۔ ان میچز کے دوران انہوں نے اپنے دور کے کئی معروف اداکاروں کو کرکٹ کے میدان میں دیکھا اور یہی انہیں اداکاری اور شیکسپیئر کے ڈراموں کی ریڈنگ میں اپنے آئیڈیل سر آرتھر جون گیلگڈ کی پہلی جھلک دیکھنا نصیب ہوئی۔

جب بلے باز پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا

ضیا محی الدین لکھتے ہیں کہ گیلگڈ کے بارے میں کم ہی لوگ جانتے تھے کہ وہ اپنے دورِ جوانی میں ایک بہترین کرکٹر رہے تھے۔ ان کی فیلڈنگ بے مثال تھی اور وہ فیلڈنگ بھی بہت ڈرامائی انداز میں کرتے تھے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ایک بار گیلگڈ نے بلے باز کے رن آؤٹ ہونے کی زور دار اپیل کی لیکن امپائر کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ یہ دیکھ کر گیلگڈ نے ایک زور دار تقریر کر ڈالی۔ جو کچھ یوں تھی کہ اے پتھر کے آدمی، ذرا کریز پر نظر کرو اور بتاؤ کہ تمہیں اس پر کہا بلے کے زمین پر لگنے کا کوئی نشان دکھائی دیا۔ نہیں، ایسا کبھی نہیں ہوگا کیوں کہ بلے نے کبھی اس کھوکھلی زمین کو چھوا ہی نہیں۔

ضیا محی الدین لکھتے ہیں کہ گیلگڈ کے ڈرامائی انداز میں ادا کیے گئے اس مکالمے سے امپائر پر تو کوئی اثر نہ وہا لیکن بلے باز پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور یہ تسلیم کرکے پویلین کی جانب روانہ ہوگیا کہ وہ رن آؤٹ ہو چکا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ کرکٹ کی تاریخ میں شاید آخری بار ایسا ہوا ہوگا کہ کسی کھلاڑی کی اپیل پر لوگوں نے نشستوں سے کھڑے ہو کر داد دی۔

کرکٹ سے ضیا محی الدین گہرے لگاؤ کے بارے میں ایک بات بہت مشہور تھی کہ فلموں کے معاہدے کرتے ہوئے وہ اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ شوٹنگ کے دوران اگر ٹیسٹ میچ ہوگا تو انہیں میچ دیکھنے سے نہیں روکا جائے گا۔

مصنف و صحافی محمودالحسن سے کرکٹ سے متعلق اپنے شوق کے بارے میں انٹرویو کے دوران ضیا محی الدین نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ وہ ویسٹ انڈیز کے سر گیری سوبرز کو آل ٹائم فیورٹ کرکٹر قرار دیتے تھے۔

شیکسپیئر اور صدا کاری

تھیٹر میں ضیا محی الدین نے شیکسپیئر کے کئی ڈراموں میں کردار ادا کیے۔ لیکن اس مصنف سے تعلق کا آغاز بھی ان کے بچپن کے دنوں سے ہوتا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ان کے والد زندگی بھر انگریزی کے استاد رہے لیکن جب بھی ان سے بات کی تو پنجابی یا اردو ہی میں کی۔ البتہ شیکسپیئر کے ڈراموں کے مکالمے اس وقت ان کے کانوں میں پڑنا شروع ہوئے جب وہ یہ جانتے بھی نہیں تھے کہ یہ دنیا کے عظیم ڈراما نگار کے قلم سے نکلے ہیں۔

وہ لکھتے ہیں کہ بچپن میں جب کبھی وہ اپنے والد کے ساتھ شام کی سیر کو جاتے اور چلتے چلتے ان کے والد کی ہاتھ کی چھڑی کسی پتھر یا سوکھے پتے سے ٹکرا جاتی تھی وہ کہتے:’’O what a rogue am I یہ شیکسپئر کے ڈرامے ’ہیملٹ‘ کا ایک مکالمہ ہے۔

بعدازاں یہی جب 1950 کی دہائی میں ضیا محی الدین نے معروف اداکار رچرڈ برٹن کی ’ہیملٹ‘ میں اداکاری دیکھی تو وہ شیکسپیئر کے دل دادہ ہوگئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس ڈرامے کو دیکھنے کے بعد انہیں احساس ہوا کہ شیکسپیئر ایک الگ دنیا ہے جسے انہیں خود کھوجنا چاہیے۔

ان کے اندازِ گفتگو اور ادبی شاہ پاروں کو پڑھنے کے انداز میں بھی اسی کھوج کی جھلک نظر آتی تھی۔ وہ اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ سر آرتھر جون گیلگڈ سے بہتر انداز میں شیکسپیئر کو پڑھنے والا کوئی نہ تھا۔

ایک جگہ گلگیڈ کے اس قول کا حوالہ دیتے ہیں کہ مکالمہ اس طرح ادا کرو جیسے تیراکی کی جاتی ہے۔ انگریزی اور اردو شاعری کے ذوق کے ساتھ ساتھ وہ فن شعر، عروض اور نغمگی کے اصولوں کا علم رکھتے تھے۔ اس پر انہوں نے مضامین بھی لکھے ۔

ضیا محی الدین نے نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) کے ذریعے پاکستان میں سنجیدہ تھیٹر کی روایت کو زندہ کیا۔ وہ صحیح معنوں میں ہر فن مولا تھا۔

موجودہ نسل کے لیے ان کا سب سے بڑا تعارف ان کی صدا کاری تھی۔ اس کے جوہر دکھاتے ہوئے انہویں نے ماضی کی کئی عظیم تخلیقات سے نئے پرانے سننے والوں کو متعارف کرایا۔

انہوں نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ وہ ایسے قصے کہانیوں اور تخلیقات کا انتخاب کرکے انہیں پڑھتے ہیں جن میں ماضی کا ذکر بہت زیادہ ہوتا ہے۔

وہ وضاحت کرتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ وہ ماضی پرستی کا شکار ہیں۔ ماضی کے کئی روایتیں سفاکی اور ناانصافی پر مبنی تھی۔ لیکن اس کے باوجود ماضی ایک ایسا پیٹرن ہے جو کسی اجنبی کلچر کے مقابلے میں زیادہ آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ آج کی زندگی ماضی سے کٹ چکی ہے اور اس کے مستقبل کی کوئی سمت نہیں۔

ماضی کی یادوں سے زندگی کو اجلانے والے یہ فن کار اب یاد بن کر اپنے چاہنے والوں کے دل و دماغ میں زندہ رہیں گے۔

XS
SM
MD
LG