رسائی کے لنکس

کرونا وائرس کی ویکسین آزمائش کے آخری مرحلے میں داخل


فائل فوٹو
فائل فوٹو

امریکہ کی بایوٹیک کمپنی 'موڈرنا' کی تیار کردہ کرونا وائرس کی ویکسین نے تمام رضاکاروں میں مدافعتی نظام کو متحرک کر دیا ہے جس سے اس کی کامیابی کی توقعات بڑھ گئی ہیں۔

موڈرنا نے اس ویکسین کو نیشنل انسٹی ٹیوٹس آف ہیلتھ کے تعاون سے تیار کیا ہے۔

نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں منگل کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ویکسین کے معمولی مضر اثرات دیکھنے میں آئے ہیں جن میں تھکن، ٹھنڈ لگنا، سر درد، پٹھوں کا درد اور انجکشن کے مقام پر درد شامل ہیں۔

یہ پہلی امریکی ویکسین ہے جس کی آزمائش کے نتائج سینئر ماہرین کی نگرانی میں شائع ہوئے ہیں۔

اس ویکسین کی تیسری اور وسیع پیمانے کی آزمائش 27 جولائی کو شروع کی جائے گی جس میں تسلی بخش نتائج ملنے کی صورت میں نگراں انتظامیہ فیصلہ کرے گی کہ اسے کب عوام کو فراہم کیا جا سکتا ہے۔ یہ امریکہ میں پہلی ویکسین ہو گی جس کی تیسری آزمائش کی جائے گی۔

موڈرنا نے میڈیا کو جاری بیان میں کہا ہے کہ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو کمپنی ہر سال ویکسین کی 50 کروڑ خوراکیں فراہم کرنے کے قابل ہو گی اور 2021 سے یہ تعداد ایک ارب بھی ہو سکتی ہے۔

تحقیق میں شامل ڈاکٹر لیزا جیکسن نے بتایا کہ پہلے مرحلے کی آزمائش کا بنیادی مقصد یہ جاننا تھا کہ ویکسین کس قدر محفوظ ہے اور کیا مدافعتی نظام کو بیدار کرتی ہے۔ قوت مدافعت سے متعلق ابتدائی نتائج حوصلہ افزا ہیں لیکن ہم نہیں جانتے کہ ویکسین بیماری سے بچا سکے گی یا نہیں۔ اب ہم اس مرحلے کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں تمام جواب مل جائیں گے۔

کسی بھی دوا یا ویکسین کے پہلے مرحلے کی آزمائش میں مختصر تعداد میں صحت مند رضاکار شریک ہوتے ہیں جس کا مقصد یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ وہ کس حد تک محفوظ ہے۔

دوسرے مرحلے میں اسے مختلف عمر اور صحت کے لوگوں پر آزمایا جاتا ہے۔ تیسرے مرحلے میں ہزاروں افراد شریک ہوتے ہیں جس میں اس کے مؤثر ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

موڈرنا کی ویکسین کے پہلے مرحلے میں 18 سے 55 سال کی عمر کے 45 صحت مند رضاکار شریک ہوئے جنھیں 28 دن کے وقفے سے ایم آر این اے 1237 ویکسین کی دو خوراکیں دی گئیں۔ کچھ افراد سیاٹل اور باقی اٹلانٹا میں اس آزمائش میں شامل ہوئے۔ انھیں تین مختلف مقدار میں ویکسین لگائی گئی۔

ڈاکٹر لیزا جیکسن نے کہا کہ تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ وائرس سے بچاؤ کے لیے مدافعتی نظام کا جس طرح کا ردعمل درکار ہے، اس کے لیے ایک بار ویکسین کافی نہیں ہوگی۔ رضاکاروں میں معمولی سے درمیانے درجے کے سائیڈ افکیٹس دیکھنے میں آئے اور وہ لوگ زیادہ متاثر ہوئے جنھیں زیادہ مقدار دی گئی۔

تحقیق کے ڈیٹا سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ویکسین نے اینٹی باڈیز ردعمل کو بھی جنم دیا۔ اینڈی باڈیز وہ پروٹین ہوتے ہیں جو جسم وائرس سے لڑنے کے لیے پیدا کرتا ہے۔ ان کا درجہ ویسا ہی تھا جیسا کوویڈ نائنٹین سے صحت یاب افراد میں دیکھا جارہا ہے۔

ماہرین حتمی آزمائش میں امریکہ کے 87 مقامات پر 30 ہزار افراد کو شامل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ان میں وہ لوگ شامل ہوں گے جو زیادہ خطرے والے علاقوں یا حالات میں رہتے ہیں۔ انھیں 100 مائیکروگرام کی ویکسین کی دو خوراکیں چار ہفتوں کے وقفے سے دی جائیں گی۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں کرونا وائرس کی 23 ممکنہ ویکسینز کی آزمائش جاری ہے۔

XS
SM
MD
LG