رسائی کے لنکس

’کائنات کا سارا نظام ہی ایک ردھم پر چل رہا ہے‘: دلیپ


مجھ جیسے نو آموز کے لئے دلیپ کمار ایک استاد، بلکہ ایک درسگاہ ہیں۔ اُن کی باوقار اور دل آویز شخصیت، دھیمے لہجے میں بولنا، فن کی بلندیوں اور تمام تر شہرت اور عزت کے باوجود، انتہائی انکساری۔ اِن سب باتوں نے مجھے اُن کا گرویدہ بنائے رکھا ہے

ریڈیو پاکستان راولپنڈی، جو اِسی پشاور روڈ پر واقع تھا، اُس پر گزارا ہوا۔ بچپن سے اب تک کا زمانہ یاد آ رہا تھا۔

بچوں کے پروگراموں میں حصہ لیتے لیتے، جب ذرا عمر بڑھی اور آواز پختہ ہونا شروع ہوئی، تو میں نے اناؤنسمنٹ کے ساتھ ساتھ ہی ریڈیو کے ڈراموں میں چھوٹے چھوٹے کردار ادا کرنے شروع کیے۔

اور وہیں پہلی مرتبہ دلیپ کمار کا نام سنا اور انکی فنکارانہ شان کا اندازہ ہوا۔کیونکہ، جب کوئی ذرا اچھا کردار ادا کرتا یا جملے کی ادائیگی خوبصورت طریقے سے ادا کرتا، تو کہا جاتا کہ بھئی دلیپ کمار بن گیا۔ خاص طور پر اس وقت کے پنڈی سٹیشن کے مرحوم نور احمد، پشاور کے ودود منظر اور کراچی کے سلیم احمد جب مکالمے ادا کرتے تھے، خاص طور پر رومانوی مکالمے، تو لگتا تھا کہ دلیپ صاحب کی فلم کا کوئی آڈیو ورژن چل رہا ہے۔

اتفاق تھا کہ میں نے اُس وقت تک دلیپ صاحب کی، بلکہ انڈیا کی کوئی فلم نہیں دیکھی تھی۔کیونکہ، بچپن میں تو والد صاحب کی سختی اتنی تھی کہ گھر سے باہر نکلنے یا فلم دیکھنے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ اور جب ذرا شعور کی منزل میں قدم رکھا اور ریڈیو جانے کی اجازت ملی تو اُس وقت تک بھارتی فلموں کی نمائش پر پاکستان میں پابندی لگ چکی تھی۔

اب جب اداکاروں کی محفل میں بیٹھتے اور آواز کے اتار چڑھاؤ اور اداکاری کے رموز پر بات ہوتی تو مشہور فلموں اور اداکاروں اور خاص طور پر دلیپ کمار کا ذکر ہوتا اور پھر انکی اداکاری کے ایسے ایسے پہلو سامنے آتے کہ رشک آتا کہ کیا فنکار ہیں اور کیا انکی اداکاری ہے۔ اور، بے اختیار جی چاہتا کہ کاش ہم بھی کبھی اس منزل پر پہنچ جائیں۔

حیرانی یہ تھی کہ ہرشخص ہی ان سے بے پناہ عقیدت اور محبت کا اظہار کرتا اور کہتا کہ میں نے دلیپ کمار کی فلاں فلم دس مرتبہ دیکھی ہے، فلاں فلم کوئی پانچ مرتبہ اور دو تین بار تو شاید ہر فلم ہی دیکھی جاتی تھی۔ پورے پورے مکالمے اور مناظر لوگوں کو ازبر تھے۔ داغ، انداز، آن، مغل اعظم، دیوداس، کوہ نور، گنگا جمنا اور رام اور شیام۔ غرض، ایک سے ایک شاہکار فلم کا ذکر ہوتا۔ اور میرے جیسے فنکار کے لئے جو اس رنگ برنگ دنیا میں ابھی قدم رکھ رہا تھا، اس اشتیاق کو بڑھا رہا تھا کہ وہ کون افسانوی شخصیت ہےجو جیتا جاگتا انسان ہے لیکن کوئی دیو مالائی شہزادہ لگتا ہے۔ جس کی داستانیں زبان زدِ عام ہیں۔

اب مشکل یہ تھی کہ کہ ان کی فلمیں کہاں اور کیسے دیکھی جائیں۔ وی سی آر کا زمانہ ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ البتہ، میگزین اوراخبارات تھے۔ لہٰذا، جہاں کہیں کوئی مضمون، کوئی تصویر، کوئی اخبار کا ٹکڑا ایسا نظر آتا جس میں ہمارے اس فنکار کا ذکر ہوتا فوراً پڑھ ڈالتے۔

پھر، اچانک یوں ہوا کہ ایک دن ’آل انڈیا ریڈیو‘ سنتے ہوئے ان کی ایک فلم کا ساؤنڈ ٹریک سننے کو مل گیا۔ بس پھر کیا تھا۔ اب جب بھی دلیپ کمار کی کسی فلم کا اعلان ہوتا اس دن ریڈیو ضرور سنا جاتا۔

ہمارے اِس شوق کو دیکھتے ہوئے، ہمارے ایک دوست نے کہیں سے کچھ فلموں کے کیسٹ لا دئے۔ جناب مزا آگیا۔ کئی کئی بار ان کو سنا اور مکالموں کی ادائیگی پر غور کیا اور خاص طور پر نوٹ کیا کہ دلیپ صاحب چاہے مکالمے بول رہے ہوں، عام بات چیت کر رہے ہوں یا سٹیج پر تقریر کر رہے ہوں وہ لفظوں کا چناؤ بہت عمدگی سے کرتے ہیں۔ اور ہر جملہ اس خوبصورتی سے ادا کرتے ہیں کہ ہر لفظ انتہائی صاف طریقے سے اپنے پورے معانی کے ساتھ، پورے رچاؤ کے ساتھ آپ تک پہنچتا ہے۔

چونکہ، ان کی آواز میں ایک مٹھاس ایک چاشنی ہے اور ان کے جملوں میں ایک خاص ردھم، ایک ربط ہوتا ہے پھر آواز کے اتار چڑھاؤ کابہت دھیان رکھتے ہیں۔ تو لگتا ہے کہ وہ نثر نہیں نظم پڑھ رہے ہوں اور اشعار میں باتیں کر رہے ہیں۔ وہ کبھی ریڈیو پر نہیں بولے۔ لیکن، مکمل ریڈیو صداکار لگتے ہیں۔۔ میں نے کہیں پڑھا بھی کہ وہ مکالموں کو اشعار کی طرح موزوں کرتے تھے اور ایسے لفظ نکلوا دیتے تھے جو سخت اور بے وزن ہوں۔

مجھ جیسے نو آموز کے لئے وہ ایک استاد بلکہ ایک درسگاہ بن گئے۔ ان کی باوقار اور دل آویز شخصیت، دھیمے لہجے میں بولنا، فن کی بلندیوں اور تمام تر شہرت اور عزت کے باوجود، انتہائی انکساری۔ ان سب باتوں نے مجھے ان کا گرویدہ بنا دیا۔ اور، میں ان سے غائبانہ طور پر بہت کچھ سیکھتا رہا۔ بعد میں جب وی سی آر کا زمانہ آیا، تو پھر ان کی کچھ فلمیں ویڈیو پر دیکھنے کو ملیں، تو وہ تمام باتیں اور تعریفیں جو لوگوں سے ان کے بارے میں سنی تھیں، سچ ثابت ہوئیں۔

قدرت نے مجھے ریڈیو پر بولنے کا موقع بھی فراہم کر دیا۔

اور جو کچھ دلیپ صاحب سے اور اپنے سینئرز سے حاصل کیا، اکژ سٹوڈیو میں گھنٹوں اکیلا بیٹھا، اُس کی مشق کرتا رہتا، ہیڈ فون پر اپنی آواز کو بار بار سنتا، جملوں کو اور تلفظ کو ٹھیک کرتا اور پھر ریکارڈنگ کرکے ٹیپ سنا کرتا۔

سانس کی مشق اور لفظوں کا اتار چڑھاؤ بھی سیکھا۔ بطور ریڈیو اناؤنسر، آواز کے استعمال اور لہجےکا سامعین پر اثر دیکھا۔ا چھے صداکاروں کے ساتھ ریڈیو کے ڈراموں میں حصہ لینے کا بھی موقع مل گیا۔

اور پھر جب پاکستان ٹیلی وژن نے راولپنڈی سے اپنی نشریات شروع کیں تو میں ریڈیو کی تمام تربیت کے ساتھ وہاں پہنچ گیا۔

پہلے اپنا اداکاری کا شوق پورا کیا۔ چھوٹے چھوٹے کردار ملنا شروع ہوگئے اور پھر تقسیم ِ پاکستان پر بننے والی منّوں بھائی کی تحریر کردہ پنڈی ٹیلیوژن کی ایک ڈرامہ سیرئیل۔ میں چھوٹا سا، لیکن مستقل رول مل گیا۔ ایک نوجوان جس کی ماں فسادات میں مر چکی ہے۔ وہ نیم پاگل انداز میں سٹیشن پر آنے والے ہر مسافر سے پوچھتا پھرتا ہے کہ اماں تو نہیں آئیں۔۔۔۔۔اماں تو نہیں آئیں۔۔۔۔۔۔۔یہ ڈائیلاگ اور کردار دیکھنے والے کے دل پر لگتا تھا۔ اس لئے بہت ہٹ ہوگیا۔ بہت پسند کیا گیا۔

اور بعد میں معروف ٹی وی ہدایت کار، لاہور سے کئی ٹی وی ڈراموں میں اسی طرح کا کردار ڈالا۔ لیکن، میرے لئے اُس وقت نقطہٴعروج تھا جب ایک دن میرے ساتھی پیارے دوست اور دیرینہ فنکار، برکت اللہ مرحوم نے کہا: ’یار، تُو تو فلم داغ کا دلیپ کمار لگ رہا تھا‘۔ ہو سکتا ہے اُس نے میرا دل رکھنے اور دوستی کی خاطر تعریف کر دی ہو، لیکن ہمارے کئی دن اِس جملے کے نشے میں گزر گئے۔

حالانکہ، میں نے کبھی دلیپ صاحب کی یا کسی اور فنکار کی نقّالی نہیں کی، اور آپ کر بھی نہیں سکتے، بڑا بھونڈا لگتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ لاشعوری طور پر کبھی کوئی انداز مل جائے۔۔ لیکن، یہ ضرور ہوا کہ بعد میں خبریں پڑھتے ہوئے میں نے روائیتی انداز میں زور زور سے، چیخ کر پڑھنے کے بجائے، دھیما انداز اختیار کیا۔ آواز کے اتار چڑھاؤ اور جملوں کی ادائیگی ایک ایسے توازن اور رِدھم میں کرنے کی کوشش کی کہ خبر کتنی بھی جان لیوا اور بُری ہو، سامعین و ناظرین پر سنتے ہوئے گراں نہ گزرے۔ اور اگر آواز میں مٹھاس، پیار اور اپنائیت ہوگی، تو چاہے آپ کتنی ہی دیر بولیں، اور چاہے کچھ بھی بولیں، لوگ آپ کو سنتے رہیں گے اور ان کو ناگوار نہیں ہو گا۔۔

گاڑی ،اسلام آباد کی سڑک پر دوڑ رہی تھی۔ میں اپنے خیالوں میں گم تھا کہ اچانک مونا کی آواز نے چونکا دیا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں۔ایف۔5 سیکٹر پیچھے رہ گیا۔

اوہ۔ میں نے جلدی سے گاڑی موڑی اور وارث صاحب کے گھر کی طرف رخ کرلیا۔

اسلام آباد کی یہ خوبی ہے کہ آپ کو اگر پتہ معلوم ہو تو گمُ نہیں ہوتے۔ منزل پر پہنچ ہی جاتے ہیں۔ اور یہی ہوا۔ ہم جلد ہی ان کے گھر کے باہر کھڑے تھے۔ اور شکر ادا کیا کہ
دلیپ صاحب ابھی پہنچے نہیں تھے، کیونکہ میاں حبیب اللہ باہر ہی ان کا انتظار کر رہے تھے۔

اُن کے ساتھ ہی وارث صاحب بھی کھڑے تھے۔ دونوں نے بڑے تپاک سے ہمارا خیر مقدم کیا اور شکریہ ادا کیا۔ میں نے کہا کہ شکریہ تو آپ کا کہ اس نادر موقع پر ہمیں یاد رکھا۔ حبیب اللہ نے وارث صاحب کا تعارف کروایا۔ معلوم ہوا کہ وہ بھی دلیپ صاحب کے بڑے عاشقوں میں سے ہیں۔ کاروبار کے سلسلے میں زیادہ تر باہر رہتے ہیں اور آتے جاتے، بھارت ضرور جاتے ہیں دلیپ کمار سے ملنے۔ اور جانے سے پہلے ان کی فرمائش پوچھ لیتے ہیں اور دلیپ صاحب عموماً کسی پاکستانی شاعر و ادیب کی کتاب یا کسی میوے کی فرمائش کرتے ہیں۔ دونوں کے درمیان تعلق بڑھتے بڑھتے بےتکلف دوستی میں بدل گیا ہے اور محبت کا یہ عالم ہےکہ وارث صاحب نے اپنے لئے ایسی بیوی کا انتخاب کیا ہے جس کی شکل سائرہ بانو سے ملتی ہے۔

ہر شخص تیرا نام لے، ہر شخص دیوانہ تیرا

چونکہ، ہماری دونوں بچیاں نیند کی حالت میں ہماری گود میں تھیں، اور ماحول اور لوگ اُن کے لئے اجنبی تھے اس لئے ہم ان کو لے کر ڈرائنگ روم کے کونے میں ایک صوفے پر جا بیٹھے۔

تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ شور ہوا اور گاڑیوں کا قافلہ آکر رکا۔ اور تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آگیا!

دل آویز مسکراہٹ لئے۔ ہمارا شاندار ہیرو گاڑی سے اترا۔ ساتھ اُن کے بھائی اور کچھ اور لوگ بھی تھے۔ باوجودیکہ، مہمانوں کو ایک ترتیب سے قطار میں کھڑا کیا گیا تھا۔لیکن، شخصیت کا طلسم ایسا تھا کہ اچھے اچھے معزز لوگ سب کچھ بھول کر لائن توڑ کر ان کی طرف لپکے۔ ہم تو دور کھڑے یہ سب منظر دیکھ رہے تھے۔ جو ہمارے لئے بڑا خوبصورت اور بڑا یادگار لمحہ تھا۔

مہمانوں سے ملتے ملاتے، دلیپ صاحب دور ایک صوفے پر بیٹھے تو بچے ان کے ارد گرد ہو گئے۔ وہ بھی بچوں سے کھیلنے لگے۔ کبھی ان کو لطیفے سناتے۔ کبھی ہاتھوں اور رومال سے شکلیں بناتے۔ بچے کھل کھلا کر ہنستے تو وہ بھی خوش ہوتے۔ یہ سادگی دیکھ کر محسوس ہی نہیں ہو رہا تھا کہ اتنی بڑی شخصیت درمیان میں ہے۔

اس دوران، وارث صاحب کی نظر ہم پر پڑی تو وہ فوراً آئے اور کہنے لگے آپ کی ملاقات ہوئی۔ میں نے کہا کہ ایک تو ان کے گرد بھیڑ بہت ہے دوسرے ہمارے بچے نیند میں ہیں اس لئے ہم یہیں بیٹھ گئے۔ انہوں نے کمال کیا کہ تھوڑی دیر میں دلیپ صاحب کو لیکر ہماری طرف آگئے اور ہمارا ایسا شاندار تعارف کرایا کہ ہمارے آئیڈیل فنکار ہمارا ہاتھ تھام کر وہیں بیٹھ گئے۔ اور بچیوں کو دیکھ کر بولے کہ اوہ کتنی cute ہیں۔ لیکن، بچے بادشاہ ہوتے ہیں۔ ان ٕمعصوم بچیوں کو کیا معلوم تھا کہ کون اُن سے مخاطب ہے۔

اب جب ذکر ہوتا ہے اور تصاویر دیکھتی ہیں تو بہت افسوس کرتی ہیں۔

دلیپ صاحب کا محبت کا یہ بھی ایک انداز ہے کہ مخاطَب کا ہاتھ اپنے نرم اور گداز ہاتھوں میں اس طرح دیر تک تھامے رہتے ہیں کہ آپ ان کے پیار اور شفقت کی گرمی اور لمس محسوس کر سکتے ہیں۔

میں تو ایک خواب کی حالت میں تھا۔ کچھ معلوم نہیں کہ وقت کیسے گزر رہا تھا۔ یہ یاد ہے کہ جب انہوں نے فن کے حوالے سے بات شروع کی تو میں نے کہا کہ آپ کی گفتگو اور مکالموں کی ادائیگی میں ایک خاص ردھم ہوتا ہے، تو گویا ہوئے کہ، ’کائنات کا سارا نظام ہی ایک ردھم پر چل رہا ہے‘۔

کیا برجستہ، جامع اور مختصر جواب تھا۔ اُن کا یہ تاریخی جملہ آج بھی میرے کانوں میں گونجتا ہے۔

اُن کے ساتھ گزارے ہوئے وہ تمام یادگار لمحات ذہن پر نقش ہیں۔ اُن کے گداز اور نرم ہاتھوں کا لمس اور ان کی محبت کی گرمی، آج بھی محسوس ہوتی ہے۔

اور آج اخبار میں ایک خبر مع تصویر چھپی ہے کہ دلیپ صاحب کو دل کی معمولی سی تکلیف ہوئی تھی۔ فوراً ہسپتال لیجایا گیا جہاں اب وہ روبصحت ہیں۔ تصویر میں وہ ہسپتال کے بستر پر دراز ہیں۔ وہی مسکراہٹ۔ چہرے پر وہی سکون اور اطمینان۔

بس، دعا یہی ہے کہ ہمارا یہ نوّ ےسالہ افسانوی فنکار یوں ہی صدا مسکراہٹیں بکھیرتا رہے۔ (آمین)۔
XS
SM
MD
LG