منی بیگم کا شمار پاکستان اور جنوبی ایشیا کے ان گلوکاروں میں ہوتا ہے جو غزل اور گیت کی گائیگی میں اپنا ایک منفرد مقام اور شناخت رکھتے ہیں۔ انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس کا ایوارڈبھی مل چکاہے۔ گذشتہ دنوں جب وہ ایک کنسرٹ کے سلسلے میں واشنگٹن آئیں تو وائس آف امریکہ نے ان سے ایک خصوصی انٹرویو کیا۔
منی بیگم سے پہلا سوال تھا کہ جس زمانے میں آپ نے گلوکاری کا آغاز کیا تو آپ کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑاتھا کیونکہ اس وقت پاکستان میں گلوکاری کے شعبے میں خواتین کی تعداد بہت کم تھی۔
منی بیگم کا کہنا تھا کہ خواتین گلوکار تو بہت تھیں لیکن اچھے گھرانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین تعداد کم تھی۔ میرا تعلق سابقہ مشرقی پاکستان ڈھاکہ سے تھا اور 1971ء میں ہم لوگ وہاں سے نقل مکانی کرکے کراچی آگئے تھے۔ میں نے ریڈیو پاکستان جوائن کیااور وہاں سے پروگرام کرنے شروع کردیے۔ مجھے زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
ان سے ایک اور سوال یہ تھا کہ جب آپ نے گلوکاری شروع کی تو کیا آپ کو والدین کی جانب سے کسی مخالفت کا سامنا تو نہیں کرنا پڑاتھا۔
منی بیگم کاکہناتھا کہ مجھے اپنے خاندان کی جانب سے بہت زیادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ خاندان میں ہر کوئی میرے گانے کے خلاف تھا، صرف میرے والد اس کے حق میں تھے ۔ انہی دنوں میرے والد بہت بیمار ہوگئے۔ انہیں ٹی بی تھی اور ڈاکٹر نے کہا تھا کہ وہ تین مہینوں سے زیادہ نہیں جی پائیں گے۔میرے والد کی خواہش تھی کہ وہ مجھے گانا سکھا دیں تاکہ میں ان کے بعداپنے بھائی بہنوں کو سنبھال سکوں۔ان کا مقصد مجھے گلوکارہ بنانا نہیں تھا بلکہ میوزک ٹیچر بنانے کا تھا۔
منی بیگم کا کہنا تھا کہ اس کام کے لیےوقت چاہیے تھا جو میرے کے خیال میں ان کے پاس نہیں تھا۔ انہوں نے مجھے میوزک سکھانا شروع کر دیا۔ مجھے وہ ساری باتیں اب بھی یاد ہیں کہ وہ مجھے صبح چھ بجے استاد جی کے گھر پر لے کر جاتے تھے۔ میں آنگن میں بیٹھ کر استاد جی سے گانا سیکھتی تھی اور ابا کھانستے رہتے تھے۔ میں نے انہی حالات سے گذر کر گانا سیکھا اور پھر اللہ نے مہربانی یہ کی کہ میرے والد کو بھی زندگی دے دی۔پھر ان کی خواہش تھی کہ میری بیٹی بہت بڑی آرٹسٹ بن جائے اور اس کے پاس زندگی کی ہر چیز موجود ہو ۔ اور جب یہ ساری چیزیں میرے پاس آگئیں تو پھر ایک دن وہ اچانک ہی اس دنیا سے چلے گئے۔
اس سے ایک اور سوال ان کے نام کے بارے میں تھا کہ وہ نادرہ بیگم سے منی بیگم کیسے بنیں۔
منی بیگم کا کہناتھا کہ ہمارے سکول میں ہر سال ایجوکیشن ویک منایا جاتاتھا جس میں ایک میوزک شو بھی ہوتا تھا۔ ایک بار میں نے اس شو میں غزل، نعت اور گیت کے مقابلوں میں حصہ لیا اور تینوں میں پہلا انعام جیتا۔ سکول کے میوزک ٹیچر بہت خوش ہوئے ۔ انہوں نے میرے والد سے کہا کہ آپ نے اس کا کیا نام رکھا ہوا ہے۔ نادرہ بیگم۔۔ یہ تو دبلی پتلی سی ہے۔ آج سے یہ منی ہے۔ اور پھر میں نادرہ سے منی بیگم بن گئی۔
منی بیگم کا کہنا تھا کہ اگرچہ انہوں نے اپنے فنی سفر کا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا تھا لیکن انہیں اصل شہرت ای ایم آئی کمپنی کی کیسٹ سے ملی جہاں انہیں انور مقصود لے کرگئےتھے۔ انہوں نے میرا پہلا لانگ پلے جاری کیا جو دو مہینوں میں دو لاکھ کی تعداد میں فروخت ہوا۔یہ 1976ء کا واقعہ ہے۔
منی بیگم کہتی ہیں کہ اب تک کے اس سفر میں انہیں کبھی اکتاہٹ یا بے زاری کا احساس نہیں ہوا۔ وہ موسیقی کو اپنے لیے ایک درست انتخاب سمجھتی ہیں۔ ان کا کہناہے کہ موسیقی میرا میرا ذریعہ روزگار ہے۔ میرے اس فن سے کسی کو دکھ نہیں پہنچتا۔ سب اسے سن کر خوش ہوتے ہیں ۔ میں اس فن کے ذریعے مستحق لوگوں کی مالی مدد بھی کرسکتی ہوں۔ وہ مجھے دعائیں دیتے ہیں۔ میں اپنے فن سے بہت مطمئن اور بہت خوش ہوں۔