کراچی ۔۔۔پاکستان کے ساحلی شہر کراچی کے بیچوں بیچ ایک انتہائی مصروف سڑک کے کنارے درختوں میں گھری پتھروں کی ایک قدیم لیکن پروقار عمارت شان سے کھڑی دکھائی دیتی ہے ۔ وہاں سے گزرنے والا شخص، چاہے کتنی جلدی میں ہی کیوں نہ ہو ایک بار اس پر نگاہ ضرورڈالتا ہے۔
برسوں پہلے اس عمارت میں ایک جم خانہ ہواکرتا تھا لیکن اب وہاں پاکستان میں اپنی نوعیت کا منفرد اور واحد ادارہ ’نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ‘ جسے عام طورپر ’ناپا‘ کہاجاتا ہے، قائم ہے ۔
ناپا سے پہلے ملک میں ادکاری، موسیقی اور تھیڑسمیت دیگر پرفارمنگ آرٹس کی باقاعدہ تربیت فراہم کرنے والا کوئی ادارہ موجود نہیں تھا۔ تھیٹر کےاحیاء میں ناپا نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔
چند سا ل قبل قائم کیے جانے والے ادارے ’ناپا‘ کی باگ ڈور سنبھالی ورسٹائل بین الاقوامی اداکار، صداکار اورکمپیئر ضیا محی الدین نے، جبکہ راحت کاظمی، طلعت حسین، ارشد محمود، ایاز انجم اور مختلف شعبوں کے منجھے ہوئے نامور آرٹسٹ ان کی ٹیم کا حصہ بنے۔
ان سب کا کام اس لحاظ سے مشکل تھا کہ پاکستان میں اس سے پہلے پیشہ ورانہ سطح پر ایکٹنگ،میوزک اور پرفارمنگ آرٹ پڑھانے کا کوئی ادارہ نہیں تھا۔ لیکن ناپا نے تمام تر مشکلات کے باوجود اپنا سفر جاری رکھا ۔ اب تک یہاں سے پانچ ’بیج‘ کامیابی سے اپنی تربیت مکمل کر چکے ہیں۔ اوراب ٹی وی چینلز کے ڈرامے ہوں یا تھیٹر، ہر کہیں ناپا کے تربیت یافتہ فنکار اپنے مہارتوں کا جادو جگاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ناپا سے ایکٹنگ میں تین سالہ ڈپلوما مکمل کرنے والی مرینہ خان نے وی اواے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ایکٹنگ اور اسکرپٹ رائٹنگ کا شوق تو تھا لیکن اسے کیسے ’گروم‘ کیا جائے یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ لیکن ناپا میں تین سال کے دوران اتنا کچھ سیکھنے کو ملا کہ میرے اندر کا فن کار گویا نکھر کر سامنے آگیا۔
مرینہ خان کا کہناتھا کہ ناپاکے اساتذہ اور ضیا صاحب کی ذاتی دلچسپی یہاں داخلہ لینے والوں کی صلاحیتوں کو جلا بخش دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناپا کے اسٹوڈنٹ چاہے ٹی ڈرامہ ہو یا تھیٹ، ۔ہر جگہ نمایاں نظر آتے ہیں۔ میرے خیال میں تو ملک بھر میں ناپا کی برانچز کھولنی چاہئیں۔
ہرسال ناپا کے زیر اہتمام چھ ڈرامے اسٹیج کئے جاتے ہیں جنھیں زبردست رسپانس ملتا ہے اور انہیں فیملیز اور تھیڑلورز بہت شوق سے دیکھنے آتے ہیں۔ ان میں غیر ملکی مشہور ڈراموں سے ماخوذ اور طبع زاد دونوں ہی طرح کے ڈرامے شامل ہیں۔ان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی بخوشی انہیں اسپانسر کرنے پر تیار ہوجاتی ہیں ۔ایک ڈرامہ کم از کم دس دن تک اسٹیج کیا جاتا ہے۔
ناپا میں چار برسوں سے ایکٹنگ، پروڈکشن اور دیگر شعبوں کی کلاسز لینے والی عظمی سبین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ناپا نے معیاری تھیڑ کو دوبارہ زندہ کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ کراچی میں ناپا کی کامیابی کے بعداب لاہور اور اسلام آباد سے بھی تھیٹر گروپ آکر پرفارم کر رہے ہیں۔اس لئے ناپا اب لاہور اور اسلام آباد میں بھی کھولا جانا چاہئے۔۔
ناپا کے تحت پیش کئے جانے والے ڈراموں کا معیار بین الاقوامی طور پراسٹیج ہونیوالے ڈراموں جیسا ہوتا ہے۔ عظمی سبین کے بقول شروع شروع میں طبع زاد اسکرپٹ نہیں ملتے تھے ۔ مگر بعد میں صورتحال بہتر ہوتی گئی۔ مثال کے طور پر مشہور جرمن رائٹر کافکا کی زندگی پر جو ڈرامہ اسٹیج کیا گیا اس کااسکرپٹ بھی اوریجنل تھااور ڈرامے میں لائیو پرفارمنس کے ساتھ ملٹی میڈیا کا استعمال بھی کیا گیا تھا۔
عظمی نے یہ بھی بتایا کہ ناپا نے ٹی وی چینلز کے اینکرز خصوصاً نیوز اینکرز کے لئے بھی شارٹ کورس کا اہتما م کیا، جس میں ان کا ڈکشن بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دی گئی۔
کراچی جیسے مصروف شہر کی بھاگتی دوڑتی زندگی میں ناپا ثقافتی میدان میں بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں کو تفریح کے زیادہ سے زیادہ موقع فراہم کرنے کے لئے ناپا جیسے مزید ادارے بھی قائم کئے جائیں، جن سے تربیت حاصل کرکے نوجوان اپنی صلاحیتوں کو سنوارکر دنیا بھر میں نام پیدا کرسکیں۔۔۔
برسوں پہلے اس عمارت میں ایک جم خانہ ہواکرتا تھا لیکن اب وہاں پاکستان میں اپنی نوعیت کا منفرد اور واحد ادارہ ’نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ‘ جسے عام طورپر ’ناپا‘ کہاجاتا ہے، قائم ہے ۔
ناپا سے پہلے ملک میں ادکاری، موسیقی اور تھیڑسمیت دیگر پرفارمنگ آرٹس کی باقاعدہ تربیت فراہم کرنے والا کوئی ادارہ موجود نہیں تھا۔ تھیٹر کےاحیاء میں ناپا نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔
چند سا ل قبل قائم کیے جانے والے ادارے ’ناپا‘ کی باگ ڈور سنبھالی ورسٹائل بین الاقوامی اداکار، صداکار اورکمپیئر ضیا محی الدین نے، جبکہ راحت کاظمی، طلعت حسین، ارشد محمود، ایاز انجم اور مختلف شعبوں کے منجھے ہوئے نامور آرٹسٹ ان کی ٹیم کا حصہ بنے۔
ان سب کا کام اس لحاظ سے مشکل تھا کہ پاکستان میں اس سے پہلے پیشہ ورانہ سطح پر ایکٹنگ،میوزک اور پرفارمنگ آرٹ پڑھانے کا کوئی ادارہ نہیں تھا۔ لیکن ناپا نے تمام تر مشکلات کے باوجود اپنا سفر جاری رکھا ۔ اب تک یہاں سے پانچ ’بیج‘ کامیابی سے اپنی تربیت مکمل کر چکے ہیں۔ اوراب ٹی وی چینلز کے ڈرامے ہوں یا تھیٹر، ہر کہیں ناپا کے تربیت یافتہ فنکار اپنے مہارتوں کا جادو جگاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ناپا سے ایکٹنگ میں تین سالہ ڈپلوما مکمل کرنے والی مرینہ خان نے وی اواے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ایکٹنگ اور اسکرپٹ رائٹنگ کا شوق تو تھا لیکن اسے کیسے ’گروم‘ کیا جائے یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ لیکن ناپا میں تین سال کے دوران اتنا کچھ سیکھنے کو ملا کہ میرے اندر کا فن کار گویا نکھر کر سامنے آگیا۔
مرینہ خان کا کہناتھا کہ ناپاکے اساتذہ اور ضیا صاحب کی ذاتی دلچسپی یہاں داخلہ لینے والوں کی صلاحیتوں کو جلا بخش دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناپا کے اسٹوڈنٹ چاہے ٹی ڈرامہ ہو یا تھیٹ، ۔ہر جگہ نمایاں نظر آتے ہیں۔ میرے خیال میں تو ملک بھر میں ناپا کی برانچز کھولنی چاہئیں۔
ہرسال ناپا کے زیر اہتمام چھ ڈرامے اسٹیج کئے جاتے ہیں جنھیں زبردست رسپانس ملتا ہے اور انہیں فیملیز اور تھیڑلورز بہت شوق سے دیکھنے آتے ہیں۔ ان میں غیر ملکی مشہور ڈراموں سے ماخوذ اور طبع زاد دونوں ہی طرح کے ڈرامے شامل ہیں۔ان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی بخوشی انہیں اسپانسر کرنے پر تیار ہوجاتی ہیں ۔ایک ڈرامہ کم از کم دس دن تک اسٹیج کیا جاتا ہے۔
ناپا میں چار برسوں سے ایکٹنگ، پروڈکشن اور دیگر شعبوں کی کلاسز لینے والی عظمی سبین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ناپا نے معیاری تھیڑ کو دوبارہ زندہ کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ کراچی میں ناپا کی کامیابی کے بعداب لاہور اور اسلام آباد سے بھی تھیٹر گروپ آکر پرفارم کر رہے ہیں۔اس لئے ناپا اب لاہور اور اسلام آباد میں بھی کھولا جانا چاہئے۔۔
ناپا کے تحت پیش کئے جانے والے ڈراموں کا معیار بین الاقوامی طور پراسٹیج ہونیوالے ڈراموں جیسا ہوتا ہے۔ عظمی سبین کے بقول شروع شروع میں طبع زاد اسکرپٹ نہیں ملتے تھے ۔ مگر بعد میں صورتحال بہتر ہوتی گئی۔ مثال کے طور پر مشہور جرمن رائٹر کافکا کی زندگی پر جو ڈرامہ اسٹیج کیا گیا اس کااسکرپٹ بھی اوریجنل تھااور ڈرامے میں لائیو پرفارمنس کے ساتھ ملٹی میڈیا کا استعمال بھی کیا گیا تھا۔
عظمی نے یہ بھی بتایا کہ ناپا نے ٹی وی چینلز کے اینکرز خصوصاً نیوز اینکرز کے لئے بھی شارٹ کورس کا اہتما م کیا، جس میں ان کا ڈکشن بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دی گئی۔
کراچی جیسے مصروف شہر کی بھاگتی دوڑتی زندگی میں ناپا ثقافتی میدان میں بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں کو تفریح کے زیادہ سے زیادہ موقع فراہم کرنے کے لئے ناپا جیسے مزید ادارے بھی قائم کئے جائیں، جن سے تربیت حاصل کرکے نوجوان اپنی صلاحیتوں کو سنوارکر دنیا بھر میں نام پیدا کرسکیں۔۔۔