آئندہ ہفتے ہیگ میں ’نیوکلیئر سکیورٹی‘ پر شروع ہونے والا دو روزہ بین الاقوامی اجلاس دراصل تیسرا اجلاس ہے، جس سلسلے کا آغاز 2010ٗ میں ہوا تھا۔،اِن اجلاسوں کا بنیادی مقصد جوہری مواد کو محفوظ بنانا ہے، تاکہ دنیا کو تاہ کُن دہشت گرد خطرات سے بچایا جا سکے۔
علاقائی اور نظریاتی تقسیم سے بالا تر ماہرین، پالیسی ساز اور سیاست دان اس بات پر متفق ہیں کہ جوہری ہتھیار غلط عناصر کے ہاتھوں میں چلے جانے سے عالمی برادری کو ممکنہ دہشت گردی کے خدشات لاحق ہو سکتے ہیں، جنھیں روکنا اہمیت کا حامل معاملہ ہے۔
تاہم، ان خدشات کی نوعیت کو مد نظر رکھتے ہوئے،سویلین نوعیت کے جوہری تباہی برپہ کرنے والے مواد کو محفوظ بنانے کی کوششیں ابھی خاطر خواہ طور پر بارآور ثابت نہیں ہوئیں، جنھیں مشترکہ طور پر کیے جانے کی توقع کی جارہی ہے۔
بقول ماہرین، 2010ٗ اور 2012ٗ کے اجلاسوں کے نتیجے میں جو بات سامنے آئی وہ یہ ہے کہ اس معاملے پر آگہی میں اضافہ ضرور آیا ہے، اور بین الاقوامی طور پر اس میں دو رائے نہیں کہ کسی ممکنہ جوہری حملے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے نیوکلیئر مواد کو محفوظ بنایا جائے۔
ماہرین ایسے عالمی نظام کو وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں جہاں یہ بات یقینی بنائی جائے کہ جوہری حملے کی کوئی صورت باقی نہ رہے؛ لیکن یہ کہ اس سلسلے میں ابھی بہت کچھ کیے جانے کی ضرورت ہے؛ قبل اس کے کہ کسی ممکنہ حملے کے بعد عملی اقدام کے لیے نیند سے بیدار ہوا جائے۔
ساتھ ہی، اس توقع کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ ہیگ کے اجلاس میں ’جوہری سلامتی‘ کے حوالے سے کوششوں میں حائل موجودہ ’کمزور کڑیوں‘ کو عبور کرنے سے متعلق عزم کا اعادہ ہوگا، اور کرہ ارض کی بقا کے لیے کی جانے والی کوششوں میں بہتری کی راہ نکلے گی۔
یہ بھی امید کی جارہی ہے کہ جوہری سلامتی کے ضمن میں ایسے اقدام کیے جائیں گے جن سے ٹھوس نتائج برآمد ہوں، اور یوں 2016ٗمیں جب واشنگٹن میں اس سلسلے کا آخری اجلاس منعقد ہو، ایک واضح پیش رفت سامنے ہو۔
ہیگ اجلاس کے بارے میں جاری ہونے والے بنیادی حقائق نامے میں کہا گیا ہے کہ، ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ 2014ٗ کی اس سربراہ کانفرنس کو ٹھوس نتائج سے ہمکنار کرنے کی فکر اور قابل قدر سعی کی جانی چاہیئے، تاکہ ’نیوکلیئر سکیورٹی‘ کے معاملے پر ٹھوس بنیاد پر ’ایک ورثے‘ کا اہتمام ہو سکے، جو تمام کرہ ارض کے لیے نیک شگون ثابت ہو۔
یاد رہے کہ امریکی صدر براک اوباما نے 2009ٗ میں پراگ میں خطاب کرتے ہوئے دہشت گردی کے خدشات اور جوہری مواد کو محفوظ بنانے کی ضرورت اجاگر کی تھی، جس کے بعد ’نیوکلیئر سکیورٹی‘ سے متعلق اِن دو سالہ اجلاسوں کی ابتدا ہوئی۔ اس حوالے سے مشترکہ سطح پر بین الملکی سطح پر کوششوں کا ایک سلسلہ جاری ہے، اور کئی عدد ورکنگ گروپ اپنے اجلاس منعقد کرکے اپنی تجاویز دے چکے ہیں، جن کا وقت بوقت اعلان سامنے بھی آتا رہا ہے۔
اب تک کی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے، ماہرین یہ کہتے ہیں کہ کئی قسم کی پیش رفت نمایاں ہے، جس میں تباہ کُن جوہری مواد کو تلف کیے جانے اور جوہری سلامتی کے چیلنجوں پر عالمی سطح پر دھیان مرکوز کرنے کی واضح تگ و دو شامل ہے۔
’نیوکلیئر سکیورٹی‘ کے سلسلے میں، ماہرین کی جانے والی کوششوں کی ’کمزور کڑیوں‘ کو مضبوط بنانے کی ضروت پر زور دیتے ہیں، تاکہ یہ کام رضاکارانہ نوعیت کا نہیں، بلکہ ایک منظم کاوش کی ایک باضابطہ صورت اختیار کرے، جس میں تمام اقوام عالم حصہ دار اور شریک ہوں اور ان کاوشوں کا ثمر نظر ٓئے۔
اس موضو ع پر کڑی نگاہ رکھنے والے ماہرین اور غیر سرکاری ورکنگ گروپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ جوہری مواد غیر ریاستی عناصر، دہشت گردوں، القاعدہ اور اس سے منسلک گروہوں کے ہاتھ لگنے کی صورت میں بڑے پیمانے پر تباہی کا امکان ہوسکتا ہے، جس خدشے کو مسترد اور نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
ادھر، ’فیسائل مٹیریلز ورکنگ گروپ‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ دنیا میں سول سطح پر اتنا جوہری مواد موجود ہے جس سے ہیروشیما میں تباہی لانے والے جوہری بم کی سطح کے 20000سے زائد بم بنائے جاسکتے ہیں؛ جب کہ ناگاساکی کو تباہ کرنے والے 80000سے زائد بم بن سکتے ہیں۔
بقول ورکنگ گروپ کے، ’جوہری ہتھار میں استعمال ہونے والا مواد اُن علاقوں میں بھی موجود ہے جہاں دہشت گرد سرگرم عمل ہیں‘۔
ہیگ کے اجلاس میں 56 سے زائد عالمی سربراہان کی شرکت متوقع ہے، جس میں اقوام متحدہ، یورپی یونین اور بین الاقوامی توانائی کے ادارے کے اہل کاروں کے علاوہ، نجی اور غیر سرکاری تنظیموں کے ماہرین اور نمائندے شرکت کریں گے۔
ہالینڈ کے ایک ترجمان نے منگل کے روز اخباری نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہیگ کے اجلاس کے تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ امریکی صدر براک کے علاوہ چین کے صدر اور پاکستان کے وزیر اعظم کی شرکت متوقع ہے۔
علاقائی اور نظریاتی تقسیم سے بالا تر ماہرین، پالیسی ساز اور سیاست دان اس بات پر متفق ہیں کہ جوہری ہتھیار غلط عناصر کے ہاتھوں میں چلے جانے سے عالمی برادری کو ممکنہ دہشت گردی کے خدشات لاحق ہو سکتے ہیں، جنھیں روکنا اہمیت کا حامل معاملہ ہے۔
تاہم، ان خدشات کی نوعیت کو مد نظر رکھتے ہوئے،سویلین نوعیت کے جوہری تباہی برپہ کرنے والے مواد کو محفوظ بنانے کی کوششیں ابھی خاطر خواہ طور پر بارآور ثابت نہیں ہوئیں، جنھیں مشترکہ طور پر کیے جانے کی توقع کی جارہی ہے۔
بقول ماہرین، 2010ٗ اور 2012ٗ کے اجلاسوں کے نتیجے میں جو بات سامنے آئی وہ یہ ہے کہ اس معاملے پر آگہی میں اضافہ ضرور آیا ہے، اور بین الاقوامی طور پر اس میں دو رائے نہیں کہ کسی ممکنہ جوہری حملے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے نیوکلیئر مواد کو محفوظ بنایا جائے۔
ماہرین ایسے عالمی نظام کو وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں جہاں یہ بات یقینی بنائی جائے کہ جوہری حملے کی کوئی صورت باقی نہ رہے؛ لیکن یہ کہ اس سلسلے میں ابھی بہت کچھ کیے جانے کی ضرورت ہے؛ قبل اس کے کہ کسی ممکنہ حملے کے بعد عملی اقدام کے لیے نیند سے بیدار ہوا جائے۔
ساتھ ہی، اس توقع کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ ہیگ کے اجلاس میں ’جوہری سلامتی‘ کے حوالے سے کوششوں میں حائل موجودہ ’کمزور کڑیوں‘ کو عبور کرنے سے متعلق عزم کا اعادہ ہوگا، اور کرہ ارض کی بقا کے لیے کی جانے والی کوششوں میں بہتری کی راہ نکلے گی۔
یہ بھی امید کی جارہی ہے کہ جوہری سلامتی کے ضمن میں ایسے اقدام کیے جائیں گے جن سے ٹھوس نتائج برآمد ہوں، اور یوں 2016ٗمیں جب واشنگٹن میں اس سلسلے کا آخری اجلاس منعقد ہو، ایک واضح پیش رفت سامنے ہو۔
ہیگ اجلاس کے بارے میں جاری ہونے والے بنیادی حقائق نامے میں کہا گیا ہے کہ، ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ 2014ٗ کی اس سربراہ کانفرنس کو ٹھوس نتائج سے ہمکنار کرنے کی فکر اور قابل قدر سعی کی جانی چاہیئے، تاکہ ’نیوکلیئر سکیورٹی‘ کے معاملے پر ٹھوس بنیاد پر ’ایک ورثے‘ کا اہتمام ہو سکے، جو تمام کرہ ارض کے لیے نیک شگون ثابت ہو۔
یاد رہے کہ امریکی صدر براک اوباما نے 2009ٗ میں پراگ میں خطاب کرتے ہوئے دہشت گردی کے خدشات اور جوہری مواد کو محفوظ بنانے کی ضرورت اجاگر کی تھی، جس کے بعد ’نیوکلیئر سکیورٹی‘ سے متعلق اِن دو سالہ اجلاسوں کی ابتدا ہوئی۔ اس حوالے سے مشترکہ سطح پر بین الملکی سطح پر کوششوں کا ایک سلسلہ جاری ہے، اور کئی عدد ورکنگ گروپ اپنے اجلاس منعقد کرکے اپنی تجاویز دے چکے ہیں، جن کا وقت بوقت اعلان سامنے بھی آتا رہا ہے۔
اب تک کی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے، ماہرین یہ کہتے ہیں کہ کئی قسم کی پیش رفت نمایاں ہے، جس میں تباہ کُن جوہری مواد کو تلف کیے جانے اور جوہری سلامتی کے چیلنجوں پر عالمی سطح پر دھیان مرکوز کرنے کی واضح تگ و دو شامل ہے۔
’نیوکلیئر سکیورٹی‘ کے سلسلے میں، ماہرین کی جانے والی کوششوں کی ’کمزور کڑیوں‘ کو مضبوط بنانے کی ضروت پر زور دیتے ہیں، تاکہ یہ کام رضاکارانہ نوعیت کا نہیں، بلکہ ایک منظم کاوش کی ایک باضابطہ صورت اختیار کرے، جس میں تمام اقوام عالم حصہ دار اور شریک ہوں اور ان کاوشوں کا ثمر نظر ٓئے۔
اس موضو ع پر کڑی نگاہ رکھنے والے ماہرین اور غیر سرکاری ورکنگ گروپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ جوہری مواد غیر ریاستی عناصر، دہشت گردوں، القاعدہ اور اس سے منسلک گروہوں کے ہاتھ لگنے کی صورت میں بڑے پیمانے پر تباہی کا امکان ہوسکتا ہے، جس خدشے کو مسترد اور نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
ادھر، ’فیسائل مٹیریلز ورکنگ گروپ‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ دنیا میں سول سطح پر اتنا جوہری مواد موجود ہے جس سے ہیروشیما میں تباہی لانے والے جوہری بم کی سطح کے 20000سے زائد بم بنائے جاسکتے ہیں؛ جب کہ ناگاساکی کو تباہ کرنے والے 80000سے زائد بم بن سکتے ہیں۔
بقول ورکنگ گروپ کے، ’جوہری ہتھار میں استعمال ہونے والا مواد اُن علاقوں میں بھی موجود ہے جہاں دہشت گرد سرگرم عمل ہیں‘۔
ہیگ کے اجلاس میں 56 سے زائد عالمی سربراہان کی شرکت متوقع ہے، جس میں اقوام متحدہ، یورپی یونین اور بین الاقوامی توانائی کے ادارے کے اہل کاروں کے علاوہ، نجی اور غیر سرکاری تنظیموں کے ماہرین اور نمائندے شرکت کریں گے۔
ہالینڈ کے ایک ترجمان نے منگل کے روز اخباری نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہیگ کے اجلاس کے تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ امریکی صدر براک کے علاوہ چین کے صدر اور پاکستان کے وزیر اعظم کی شرکت متوقع ہے۔