رسائی کے لنکس

بھارت: ریاست مہاراشٹرا میں ایک اسپتال میں آکسیجن لیک، 22 کرونا مریض ہلاک


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت میں کرونا بحران کے دوران اس وقت ایک بڑا حادثہ پیش آیا جب ریاست مہاراشٹرا کے شہر ناسک میں ایک اسپتال کے باہر آکسیجن ٹینکر کے لیک ہونے سے کرونا وائرس کے 22 مریض آکسیجن کی عدم دستیابی سے ہلاک ہو گئے۔

کلکٹر سورج مندھارے نے بھارت کے نشریاتی ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ کو بتایا کہ ناسک میں ذاکر حسین میونسپل اسپتال میں یہ حادثہ پیش آیا ہے۔ حادثے کے وقت اسپتال میں 171 مریض تھے اور 31 مریضوں کو آکسیجن کی ضرورت تھی۔

ناسک میونسپل کارپوریشن کے کمشنر کیلاش جادھو نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹینکر لیک ہونے کی وجہ سے نصف گھنٹے تک آکسیجن کی سپلائی بند رہی جس کی وجہ سے وینٹی لیٹرز پر موجود مریضوں کی اموات ہوئیں۔

مہاراشٹرا کے وزیرِ صحت راجیش ٹوپے نے اس واقعہ کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب حالات قابو میں ہیں۔

وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے ہلاک شدگان کے اہل خانہ سے اظہارِ تعزیت کیا ہے۔

اسپتال کے چیف میڈیکل افسر کے مطابق ہلاک شدگان کے لواحقین کو پانچ پانچ لاکھ روپے دیے جائیں گے اور حادثے کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کرائی جائیں گی۔

نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے رہنما مجید میمن نے کہا کہ ٹینکر لیک ہونے کی وجہ سے کئی لیٹر آکسیجن کا نقصان ہوا۔ اس حادثے کی وجہ سے اسپتال میں افراتفری پھیل گئی تھی۔ جو لوگ بھی اس کے ذمہ دار ہوں گے ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

یومیہ کیسز تین لاکھ کے قریب

ادھر بھارت میں کرونا کے یومیہ کیسز تین لاکھ کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران دو لاکھ 95 ہزار 41 افراد کے وبا سے متاثر ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔ جب کہ اس دوران 2023 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کو ایک طوفان کی شکل میں کرونا کا سامنا ہے۔ جو کہ صحت کے نظام پر غالب آ گیا ہے۔

انہوں نے شہریوں سے اپیل کی کہ وہ ملک میں صحت ایمرجنسی کا خیال کرکے گھبراہٹ میں مبتلا نہ ہوں اور گھروں سے باہر نہ نکلیں۔

انہوں نے ریاستی حکومتوں سے اپیل کی کہ وہ اموات میں ریکارڈ اضافے کے باوجود لاک ڈاؤن لگانے سے بچیں۔ اسے آخری متبادل کے طور پر اختیار کریں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت کرونا کی دوسری لہر پر قابو پانے کی غرض سے ملک گیر سطح پر اسپتالوں میں بیڈ، آکسیجن اور اینٹی وائرل ادویات کی سپلائی کو یقینی بنانے کے لیے مقامی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مرکز، ریاستی حکومتیں اور نجی سیکٹر ضرورت مندوں تک آکسیجن کی سپلائی کو یقینی بنانے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔ ہم پورے ملک میں آکسیجن کی پیداوار اور سپلائی کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان کے بقول چند ہفتے قبل تک صورتِ حال قابو میں تھی لیکن کرونا کی دوسری لہر ایک طوفان کی شکل میں آئی ہے۔

جب کہ حکومت کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ دارالحکومت دہلی میں بدھ سے اسپتالوں میں آکسیجن ختم ہونا شروع ہو جائے گی۔

’اقتصادی مفادات کو انسانی جانوں پر غلبہ حاصل نہیں ہو سکتا‘

دریں اثنا دہلی ہائی کورٹ نے کرونا کی صورت حال سے متعلق ایک معاملے پر سماعت کے دوران اسپتالوں کے حالات کے پیشِ نظر حکومت سے سخت لب و لہجے میں کہا کہ اقتصادی مفادات کو انسانی جانوں پر غلبہ حاصل نہیں ہو سکتا۔

عدالت نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ اسٹیل اور پیٹرولیم مصنوعات کے لیے دی جانے والی آکسیجن اسپتالوں میں منتقل کی جائے۔

حکومت نے عدالت میں پیش کیے جانے والے اپنے حلف نامے میں کہا ہے کہ اسپتالوں کو آکسیجن کی سپلائی میں کوئی وقفہ نہیں آ رہا اور صنعتی اداروں میں آکسیجن کا استعمال 22 اپریل سے بند کر دیا جائے گا۔

دہلی حکومت کی طرف سے عدالت میں پیش ہونے والے وکیل راہول مہرا نے کہا کہ آئی ناکس نامی ایک کمپنی نے عدالت کی ہدایت کے باوجود دہلی کو آکسیجن کی سپلائی بند کر دی اور اس نے دوسری ریاستوں کو آکسیجن بھیج دی۔

ویکسین کی بڑے پیمانے پر بربادی پر بھی عدالت کا اظہارِ تشویش

عدالت نے ویکسین کی بڑے پیمانے پر بربادی پر بھی اپنی تشویش ظاہر کی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ویکسین کی 10 کروڑ خوراکوں میں سے اب تک 44 لاکھ خوراکیں برباد ہو چکی ہیں۔

ایک سینئر تجزیہ کار ابھے دوبے نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کرونا کی پہلی لہر کے دوران حکومت کی پالیسی کچھ اور تھی اب کچھ اور ہے۔ پہلے حکومت نے نیشنل ڈزاسٹر ایکٹ نافذ کیا تھا۔ ریاستوں کے اختیارات اپنے ہاتھوں میں لے لیے تھے۔ وزارتِ داخلہ میں وزرا کا ایک گروپ بنایا گیا تھا جو صورتِ حال کا جائزة لیتا تھا۔

ان کے مطابق اس بار حکومت نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ اس بار ساری ذمہ داری ریاستی حکومتوں پر ڈال دی گئی ہے۔ حالاں کہ اس دوسری لہر میں پہلے والی پالیسی کو اور سختی سے نافذ کرنے کی ضرورت تھی۔

ان کے بقول حکومت نے ایسا اس لیے کیا کہ اگر حالات زیادہ خراب ہوں تو اس پر ذمہ داری عائد ہونے کے بجائے ریاستوں پر عائد ہو اور اس سے جو سیاسی نقصان ہونے والا ہے اس سے بچا جا سکے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ پہلی لہر کے کمزور پڑنے کے ساتھ ہی حکومت نے دوسرے ملکوں کو ویکسین کی سپلائی شروع کر دی تھی۔ اس نے سوچا ہو گا کہ ہم آہستہ آہستہ لوگوں کو ویکسین لگاتے رہیں گے۔ لیکن اچانک دوسری لہر آگئی جو زیادہ خطرناک ہے تو ملک میں ویکسین کی قلت ہو گئی ہے۔

ان کے مطابق دوسرے ممالک کو ویکسین سپلائی کرنے میں حکومت سے اندازے کی غلطی ہوئی ہے۔

حزبِ اختلاف کی تنقید

حزب اختلاف نے صورتِ حال کی سنگینی کے لیے حکومت کو ذمہ دار ٹھیرایا ہے۔

کانگریس کی جنرل سیکریٹری پرینکا گاندھی نے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم کو عوام میں اپنی ساکھ بہتر بنانے کی کوشش کے بجائے کرونا پر قابو پانے کے لیے حزبِ اختلاف سے بات کرنی چاہیے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ وہ پوری سنجیدگی کے ساتھ حالات پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG