دنیا بھر میں آج آزادی صحافت کا دن منایا جا رہا ہے ۔دنیا بھر میں صحافتی آزادیوں کا جائزہ مرتب کرنے والی ایک امریکی تنظیم فریڈم ہاوس نے 2009 ءکو صحافتی آزادیوں کے لحاظ سے بد ترین سال قرار دیا ہے اور اپنی حالیہ رپورٹ میں صحافتی آزادیوں کو گزشتہ آٹھ سال سے مسلسل تنزلی کا شکار قرار دیا ہے ۔بنگلہ دیش کا نام اس سال ان ملکوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جہاں صحافت جزوی طور پر آزاد ہے بھارت کا نام پہلے ہی جزوی آزاد صحافت کے حامل ملکوں میں کیا جاتا ہے مگر پاکستان کا نام اب بھی اس فہرست میں شامل نہیں ہو سکا ۔
فریڈم ہاؤس کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق سال2009ء میں پریس کی آزادی مسلسل آٹھویں سال تنزلی کا شکار رہی ۔ دنیا کے196 میں سے 35 فیصد ملکوں میں صحافت آزاد ، 33س فیصد میں جزوی طور پر آزاد اور32 فیصد میں بالکل آزاد نہیں رہی ۔دنیا کی صرف 16 فیصد آبادی کو آزاد صحافت اور 44 فیصد آبادی کو جزوی آزادصحافت میسر ہے جبکہ دنیا کی 40 فیصدآبادی ان ملکوں میں رہتی ہے جہاں صحافت آزاد نہیں ۔ آبادی کے لحاظ سے صحافتی آزادیوں کی رینکنگ میں پاکستان کا نمبر 61 واں ہے۔
کیرین کارلیکر کہتی ہیں کہ اس سال پاکستان کی صورتحال خاصی مستحکم رہی ۔وہاں صحافتی آزادیوں کی صورتحال ایک پوائنٹ بہتر ہوئی ، بہتری زیادہ تر عدلیہ کی آزادی اور چیف جسٹس کی بحالی کے بعد دیکھنے میں آئی ۔لیکن مجموعی طور پر ہم نے آزادی صحافت کی صورتحال میں بہتری نہیں دیکھی۔ ہمیں تشویش ہے کہ حکومت ان اصلاحات پر توجہ نہیں دے رہی جس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا ۔ میڈیا قوانین کے حوالےسے اور بہتر قانونی ماحول پیدا کرنے کےلئے ، ہم کو قبائلی علاقوں اور دیگر علاقوں میں صحافیوں کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر بھی تشویش ہے ۔اور یہ کہ ملک میں تشدد کے واقعات لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں کیسے صحافیوں کی کارکردگی پر اثر انداز ہو رہے ہیں ۔
رپورٹ کے مطابق اس سال جنوبی ایشیا کے دو ملکوں بنگلہ دیش اور بھوٹان کے نام اس فہرست میں شامل ہوئے ہیں جہاں صحافت جزی طور پر آزاد ہے ۔ سب صحارن افریقہ ، لاطینی امریکہ اور مشرق وسطی کے ممالک میں آ زادی صحافت کی صورتحال مزید ابتری کا شکار ہوئی ہے ، جبکہ چین ، ایران ،برما، اور لیبیا سمیت دس ملکوں میں صحافت کی صورتحال بد ترین قرار دی گئی ہے ۔کیرن کار لیکرجو صحافتی آزادیوں کے حوالے سے فریڈم ہاوس کی مرتب کردہ رپورٹ کی مینجنگ ایڈیٹر ہیں، کہتی ہیں کہ ان کی جائزہ رپورٹ میں سرکاری سینسر شپ پر ہی نہیں ، ان پابندیوں پر بھی نظر رکھی جاتی ہے جو میڈیا مالکان یا ایڈیٹرز کی جانب سے لگائی جاتی ہیں ۔
وہ کہتی ہیں کہ ہم صرف حکومت کی عائد کردہ پابندیوں کو ہی نہیں دیکھتے بلکہ ان اثرات کو بھی دیکھتے ہیں جو میڈیا مالکان اور ایڈیٹرز کا ادارتی مواد پر ہوتا ہے ۔ اگرکسی ملک کے میڈیا مالکان کا کوئی سیاسی ایجنڈا ہے جس کا اثر ان کے ادارتی مواد پر پڑتا ہے تو ہم اس کو بھی دیکھتے ہیں ۔کئی ملکوں میں صحافتی پابندیاں حکومت کی طرف سے نہیں بلکہ دیگر عناصر کی طرف سے عائد ہوتی ہیں ۔
رپورٹ کے مطابق سری لنکا ، فلپائن اور تھائی لینڈ جیسے جمہوری ملکوں میں بھی صحافت پر پابندیوں میں اضافہ دیکھا گیا ، جبکہ افغانستان کی صورتحال میں بھی کوئی بہتری ریکارڈ نہیں کی گئی ۔ بلکہ جمہوری ملکوں میں صحافیوں کے لئے خطرات میں اضافہ دیکھا گیا ہے ۔
صحافیوں کے تحفظ سے متعلق ادارے کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے فرینک سمتھ کا کہنا ہے کہ ہر دس صحافیوں کے قتل میں کم از کم نو کے کیسز میں قاتل عموما سزا سے بچ جاتے ہیں ۔ اگر ایک حکومت کسی صحافی کو جیل میں ڈال دے تو سب کو پتہ ہوتا ہے مگر کوئی کسی صحافی کو قتل کروا دے تو یہ بتانا مشکل ہے کہ کس نے ایسا کروایا ۔یہی ایک مسلسل جدو جہد ہے ۔
صحافتی آزادی کے علم برداروں کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کی تر قی جہاں دنیاکو ایک دوسرے کے قریب لا رہی ہے وہاں حکومتوں کے پاس ہی نہیں غیر ریاستی عناصر کو بھی پریس کی آزادیاں سلب کرنے کے نئے راستے میسر ہوتے جا رہے ہیں ۔انٹرنیٹ سرچ انجن گوگل کے پبلک پالیسی ڈائریکٹر رابرٹ بورسٹن کہتے ہیں کہ چین میں گوگل کو بند کرنے کے فیصلے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا مگر ضروری نہیں کہ دنیا کے ہر آمریت کا شکار ملک میں ایسے ہی حالات ہو ں کیونکہ یہ سوال آزادئی صحافت کا ہی نہیں ، معاشی نقصان کا بھی ہے ۔
وہ کہتے ہیں کہ میرا نہیں خیال کہ آپ ایک ملک کے تجربے سے اپنا ہر نیا منصوبہ ڈیزائن کر سکتے ہیں ، ہر ملک کے اپنے حالات ہوتے ہیں جس کے مطابق نئی حکمت عملی اپنانی پڑتی ہے اور اس لئے کہ ہر ملک کے مختلف قوانین ہیں جن کے اندر رہ کر کام کرنا ہوتا ہے ، بہترین تو یہ ہوگا کہ ہمارے پاس ایک مکمل رہنما کتابچہ ہو جو یہ بتائے کہ ہم آگے کیسے کام کریں گے مگر ایسی کوئی چیز نہیں ہے ۔ تھائی لینڈ میں حکومت نے یو ٹیوب بند کر دیا تھا کیونکہ اس پرکسی نے تھائی لینڈ کے شاہ کی نا مناسب وڈیوز ڈال دی تھیں ۔ہم نے ان سے مذاکرات میں طے کیا کہ اگر ہماری ویب سائٹ کو وہاں چلتے رہنے کی اجازت دی جائے تو ہم انہیں ہٹا دیں گے ۔یقینا یہ آزادی اظہار کا بہترین کیس نہیں تھا ۔ لیکن ہم نے سوچا کہ کم از کم لوگوں کو باقی مواد تو دستیاب ہو سکے ۔
صحافتی تنظیموں کو اچھی امیداس بات سے ہے کہ ٹیکنالوجی کی ترقی نے لوگوں کو اپنے ملکوں کی صورتحال کے بارے میں ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ آگاہ کر دیا ہے دنیا میں سچائی پر مبنی خبر اور اسے مہیا کرنے والے صحافیوں کے کام کی اہمیت اور مشکلات کا احساس بڑھتا جا رہا ۔
مگر صحافتی آزادیوں کے علمبرداروں کو یقین ہے کہ ان کے راستے کی مشکلات دور کرنے میں ٹیکنالوجی ان کی مدد گار ثابت ہوگی نہ کہ حکومتوں کی سینسر شپ کے راستے اسان کرنے میں ۔