واشنگٹن کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں ہلاکت کے بعد پاکستان کو امریکہ کا اسٹرٹیجک پارٹنر کہنا مناسب نہیں ہوگا ، تاہم امریکہ کی کوشش ہوگی کہ وہ ایک ایٹمی طاقت پاکستان کی دشمنی مول نہ لیں۔
امریکہ میں پاکستان کو غیر سرکاری طور پر ایک ایسا ملک سمجھا جاتا رہا ہے جو دوست نہیں مگر پارٹنر ہے ، ایک ایسا پارٹنر جس کے مفادات خطے میں دہشت گردی کے خلاف دس سال سے جاری لڑائی میں امریکہ سے مختلف رہے ہیں، مگر جس کو اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کے نام پر امریکہ پچھلی ایک دہائی سے خطیر امداد ی رقوم دے چکا ہے ۔واشنگٹن کے ماہرین اب پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو کوئی نیا نام دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔
واشنگٹن کے قدامت پسند تھنک ٹینک ہیریٹیج فاؤنڈیشن کی لیزاکرٹس کہتی ہیں کہ اوباما انتطامیہ کو اس کارروائی میں پاکستان کے کردار کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے ، بہت عرصے تک انتظامیہ کوشش کرتی رہی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں پاکستان کی کمزوریوں کونظر انداز کر کے اس کے مثبت کردار کو سجا بنا کر پیش کرے، کیونکہ پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں ، وہ عدم استحکام کا شکار بھی ہے ، اس لئے واشنگٹن میں یہ سوچ تھی کہ صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے ، اس لئے وہ اس میں اپنی وجہ سے کوئی خرابی نہیں چاہتے تھے ۔ لیکن صاف بات یہ ہےکہامریکی عوام کو یہ جاننے کا حق ہے کہ پاکستان کا کردار اصل میں کیا تھا،لیساکرٹس ،ہیریٹیج فاؤنڈیشن
، کیا واقعی یہ ایک مشترکہ آپریشن تھا اور اگر نہیں تو کیوں نہیں ؟ کیوں پاکستانی اس بارے میں کچھ پتہ چلانے میں ناکام رہے، اور میرے خیال میں پاکستان کے لئے اتحادی کا لفظ اب مزید استعمال نہیں کرنا چاہئے ۔ میرا نہیں خیال کہ یہ لفظ اس پارٹنر شپ کی نوعیت واضح کرتا ہے ۔
لیزاکرٹس کہتی ہیں کہ اس واقعے سے امریکی خفیہ اہلکاروں کی پاکستان میں موجودگی اور ڈرون حملے جاری رکھنے کی پالیسی درست ثابت ہو گئی ہے ۔ وہ کہتی ہیں کہ بن لادن کی موت سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ اپنی اس حکمت عملی میں درست تھاکہ اس کے اپنے خفیہ اہلکار گراونڈ پر موجود ہونے چاہئیں اور شاید ڈرون حملوں نے بھی اس میں کچھ کردار ادا کیا کیونکہ ان سے القاعدہ دفاعی پوزیشن میں آگئی تھی ۔ القاعدہ رہنماوں کے لئے ملاقاتیں جاری رکھنا اورایک دوسرے سے رابطے کرنا مشکل ہو گیا تھا ، اس سے ان میں عدم اعتماد بڑھا ۔ کوئی نہیں جانتا کہ ان کی مخبری کون کر رہا تھا ۔ تو بن لادن کا خاتمہ اسی پس منظر میں دیکھا جانا چاہئے ۔ اس لئے میرے خیال میں اوباما انتظامیہ ڈرون حملے جاری رکھے گی ، باوجود اس کے کہ پاکستان میں اس کی مخالفت ہو رہی ہے ۔
اسامہ کی پاکستان میں موجودگی سے پاکستانی حکام یا خفیہ ادارے آگاہ تھے ، تو پاکستان کے لئے امریکی امداد خطرے میں پڑ سکتی ہے. ۔کیٹو انسٹی ٹیوٹ کی تجزیہ کار میلو انوسنٹ
واشنگٹن کے ایک اور تھنک ٹینک کیٹو انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ میلو انوسنٹ کہتی ہیں کہ اگر یہ ثابت ہو گیا کہ اسامہ کی پاکستان میں موجودگی سے پاکستانی حکام یا خفیہ ادارے آگاہ تھے ، تو پاکستان کے لئے امریکی امداد خطرے میں پڑ سکتی ہے ۔
ان کا خیال میں کانگریس کی طرف سے پاکستان کو دی جانے والی امداد پر پابندی عائد ہو سکتی ہے ، کیری لوگر بل اور وہ اربوں ڈالر کی امداد جو آئندہ برسوں میں جمہوریت کے فروغ اوردیگر ترقیاتی امور کے لئے ملنی تھی ، خطرے میں پڑ سکتی ہے ، لیکن اس کے باوجود امریکہ کو دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں پاکستان کی ضرورت رہے گی۔
میلو انوسنٹ تسلیم کرتی ہیں کہ یہ دونوں ملکوں کے لئے ایک مشکل صورتحال ہے ، لیکن امریکہ کو پاکستان کی کتنی ضرورت ہے اس کا انحصار افغانستان سے امریکی مشن کے خاتمے کے ٹائم فریم پر ہوگا ، ان کا کہنا ہے کہ امریکی حکام کی کوشش ہو گی کہ وہ نیوکلیئر ہتھیاروں سے لیس پاکستان کو مکمل طور پر ناراض نہ کریں ۔ آنے والے دنوں میں امریکہ پاکستان کی دشمنی نہیں چاہے گا ۔بہتری اسی میں ہے کہ پاکستان کو امریکہ کا حامی رہنے دیا جائے ، اس کے ساتھ امریکہ کو افغانستان میں اپنا مشن محدود کرنا شروع کر دینا چاہئے ، اور دہشت گردی کے خلاف افغانستان میں جاری کارروائیوں میں پاکستان پر اپنا انحصار کم کرنا چاہئے ، کیونکہ یہ امریکہ کے اپنے مفاد میں نہیں ہے۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کا یہ دور کتنا طویل ثابت ہوگا ، اس کا انحصار اسامہ بن لادن کی موت سے متعلق بہت سے حقائق سامنے آنے پر ہے لیکن بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اسامہ کی موت سے متعلق سوالات کے جواب سامنے آنے تک پاکستان دفاعی پوزیشن میں ہی رہے گا ، جس کا مطلب ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں پاکستان سے مزید تعاون حاصل کرنا آسان ہو گیا ہے۔