واشنگٹن —
’ایم آئی ٹی انٹرپرائز فورم آف پاکستان‘ کے وائس چیئرمین، اظہر رضوی نے کہا ہے کہ، ’پاکستان میں اتنا ٹیلنٹ ہے کہ اگر آپ چاہیں تو میں ہر روز ایک جہاز بھر کر یہاں لاسکتا ہوں‘۔
اُنھوں نے یہ بات پاکستان ایمبیسی میں ایک تقریب کے شرکاٴ سے خطاب میں کہی۔ اس تقریب کا انعقاد امریکی محکمہ خارجہ، CRDF Globalاور ورلڈ بینک سمیت کئی اداروں کے اشتراک گلوبل انوویشن تھرو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی یا GIST نے کیا تھا جس کا مقصد ان دس باصلاحیت پاکستانی ریسرچرز اور بزنیس مالکان کو پاکستانی امیریکنز اور امریکی سرمایہ کاروں کے ساتھ تبادلہ خیال کا موقع دینا تھا، جو امریکی محکمہ خارجہ کی دعوت پر آجکل امریکہ آئے ہوئے ہیں۔
اس وفد میں سافٹ ویئر انجینیئر شاہد محمود اعوان اور کلینیکل سائیکولوجسٹ ڈاکٹر صدف سجاد جیسے باصلاحیت ریسرچرز بھی شامل ہیں، جب کہ اس میں پاکستان کی ایک بڑی سافٹ ویئر سروسز ایکسپورٹنگ کمپنی کے سی ای او شاہد میر اور اظہر رضوی جیسے تجربہ کار افراد بھی شامل ہیں، جو نئے کاروباروں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں معاونت فراہم کرنے کا شہرہ رکھتے ہیں۔
تقریب سے امریکی محمکہ خارجہ کے پاکستان اور افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے ڈین فیلڈ مین اور امریکہ میں پاکستان کے سفارتی مشن کے سربراہ ڈاکٹر اسد ایم خان نے بھی خطاب کیا۔
مسٹر فیلڈ مین نے کہا کہ امریکی صارفین اور کمپنیز پاکستان کی کل ایکسپورٹس کا بیس فیصد خرید رہے ہیں۔ جو دنیا میں کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔فیلڈ مین نے کہا کہ وہ رشتے جو پاکستانیوں اور امریکیوں کو ایک دوسرے سے جوڑتے اور ان کے تعلق کو مضبوط کرتے ہیں ان ناطوں سے کہیں مضبوط ہیں جو ان کے درمیان بعض اوقات غلط فہمیوں کا باعث بنتے ہیں۔
اس تقریب کے ایک دلچسپ سیشن میں ان افراد کو اپنی مصنوعات اور بزنس آئیڈیا ز امریکی سرمایہ کاروں اور تاجروں کے ایک پینل کے سامنے پیش کرنے تھے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر صدف سجاد نے سائیکو تھراپی پر مشتمل اپنے ویڈیو گیم کے بزنیس کا آئیڈیا پیش کیا ۔ شاہد محمود اعوان نے بجلی کے ضیاع کو روکنے کے لیئے اس کی زیادہ موثر مینیجمنٹ کو ممکن بنانے کے اپنے ماڈل سے ججز کو بہت متاثر کیا۔
وفد کے سربراہ اظہر رضوی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا ادارہ ایم آئی ٹی انٹر پرائیز فورم آف پاکستان ڈاکٹر صدف سجاد اور شاہد محمود اعوان جیسے ریسرچرز کو اپنی پراڈکٹس مارکیٹ کرنے میں مدد دینے کے لیئے ان کی کاروباری صلاحیتوں کو ٹریننگ کے ذریعے نکھارتا ہے۔ ان کے مطابق اس سے پہلے اکثر سائینٹفک ریسرچ کے نتائج ڈبوں میں ہی بند پڑے رہ جاتے تھے۔
ایونٹ کے ایک سیشن میں پاکستانی شرکا کو امریکن انویسٹرز اور رہنما کاروباری افراد کے ساتھ ٹیموں کی شکل میں بات چیت کا موقع بھی دیا گیا۔
وفد کو امریکہ کی سائنس اور ٹیکنالوجی کمپنیز کے لیے شہرت رکھنے والی سلی کون ویلی بھی لے جایا جائے گا، جہاں ان کی ملاقات امریکی اور پاکستانی امریکن کاروباری شخصیات سے کروائی جائے گی۔
اُنھوں نے یہ بات پاکستان ایمبیسی میں ایک تقریب کے شرکاٴ سے خطاب میں کہی۔ اس تقریب کا انعقاد امریکی محکمہ خارجہ، CRDF Globalاور ورلڈ بینک سمیت کئی اداروں کے اشتراک گلوبل انوویشن تھرو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی یا GIST نے کیا تھا جس کا مقصد ان دس باصلاحیت پاکستانی ریسرچرز اور بزنیس مالکان کو پاکستانی امیریکنز اور امریکی سرمایہ کاروں کے ساتھ تبادلہ خیال کا موقع دینا تھا، جو امریکی محکمہ خارجہ کی دعوت پر آجکل امریکہ آئے ہوئے ہیں۔
اس وفد میں سافٹ ویئر انجینیئر شاہد محمود اعوان اور کلینیکل سائیکولوجسٹ ڈاکٹر صدف سجاد جیسے باصلاحیت ریسرچرز بھی شامل ہیں، جب کہ اس میں پاکستان کی ایک بڑی سافٹ ویئر سروسز ایکسپورٹنگ کمپنی کے سی ای او شاہد میر اور اظہر رضوی جیسے تجربہ کار افراد بھی شامل ہیں، جو نئے کاروباروں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں معاونت فراہم کرنے کا شہرہ رکھتے ہیں۔
تقریب سے امریکی محمکہ خارجہ کے پاکستان اور افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے ڈین فیلڈ مین اور امریکہ میں پاکستان کے سفارتی مشن کے سربراہ ڈاکٹر اسد ایم خان نے بھی خطاب کیا۔
مسٹر فیلڈ مین نے کہا کہ امریکی صارفین اور کمپنیز پاکستان کی کل ایکسپورٹس کا بیس فیصد خرید رہے ہیں۔ جو دنیا میں کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔فیلڈ مین نے کہا کہ وہ رشتے جو پاکستانیوں اور امریکیوں کو ایک دوسرے سے جوڑتے اور ان کے تعلق کو مضبوط کرتے ہیں ان ناطوں سے کہیں مضبوط ہیں جو ان کے درمیان بعض اوقات غلط فہمیوں کا باعث بنتے ہیں۔
اس تقریب کے ایک دلچسپ سیشن میں ان افراد کو اپنی مصنوعات اور بزنس آئیڈیا ز امریکی سرمایہ کاروں اور تاجروں کے ایک پینل کے سامنے پیش کرنے تھے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر صدف سجاد نے سائیکو تھراپی پر مشتمل اپنے ویڈیو گیم کے بزنیس کا آئیڈیا پیش کیا ۔ شاہد محمود اعوان نے بجلی کے ضیاع کو روکنے کے لیئے اس کی زیادہ موثر مینیجمنٹ کو ممکن بنانے کے اپنے ماڈل سے ججز کو بہت متاثر کیا۔
وفد کے سربراہ اظہر رضوی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا ادارہ ایم آئی ٹی انٹر پرائیز فورم آف پاکستان ڈاکٹر صدف سجاد اور شاہد محمود اعوان جیسے ریسرچرز کو اپنی پراڈکٹس مارکیٹ کرنے میں مدد دینے کے لیئے ان کی کاروباری صلاحیتوں کو ٹریننگ کے ذریعے نکھارتا ہے۔ ان کے مطابق اس سے پہلے اکثر سائینٹفک ریسرچ کے نتائج ڈبوں میں ہی بند پڑے رہ جاتے تھے۔
ایونٹ کے ایک سیشن میں پاکستانی شرکا کو امریکن انویسٹرز اور رہنما کاروباری افراد کے ساتھ ٹیموں کی شکل میں بات چیت کا موقع بھی دیا گیا۔
وفد کو امریکہ کی سائنس اور ٹیکنالوجی کمپنیز کے لیے شہرت رکھنے والی سلی کون ویلی بھی لے جایا جائے گا، جہاں ان کی ملاقات امریکی اور پاکستانی امریکن کاروباری شخصیات سے کروائی جائے گی۔