مائرہ خان کو نظر لگ گئی۔ جی بالکل۔ کچھ ایسا ہی لگتا ہے کہ ان کے فن کو کسی کی نظر لگ گئی۔ وہ بھارتی فلم ’رئیس‘ میں کام کریں تو پاکستان میں اسے ریلیز کی اجازت نہیں ملتی اور پاکستانی فلم میں کام کریں تو بھی فلم کی ریلیز کھٹائی میں پڑ جاتی ہے۔
بالی ووڈ ایکٹر کنگ خان کے ساتھ بننے والی فلم ’رئیس‘ کے بعد اب شعیب منصور کی فلم ’ورنہ‘ کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ لاہور میں اس کا پریمیر بھی نہ ہوسکا۔ فلم کو دو روز بعد یعنی جمعہ 17 نومبر کو ریلیز ہونا تھا۔ لیکن، پنجاب سنسر بورڈ نے فلم کو نمائش کی اجازت نہیں دی۔
حالانکہ سنسر بورڈ کے وائس چیئرمین عثمان پیرزادہ سمیت چار ارکان جن میں زوریز لاشاری، کنول اور خالد غیاث بھی شامل ہیں۔ انہوں نے فلم کو ’پاس‘ کردیا تھا لیکن پنجاب فلم سنسر بورڈ، گورنمنٹ آف پنجاب نے گزشتہ روز ایک خط کے ذریعے اسے نمائش کی اجازت نہیں دی۔
سیکریٹری راؤ پرویز اختر کے دستخطوں کے ساتھ جاری مراسلے میں فلم کے موضوع کو ’حساس‘ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’فلم میں سرکاری اداروں کو نہایت نامناسب طریقے سے پورٹرے کیا گیا ہے۔‘‘
فلم ’ورنہ‘ کی ریلیز روکنے کا معاملہ ’سیاسی‘ ہے، عثمان پیرزادہ
فلم ʼورنہʼ کی کہانی گورنر پنجاب کے بیٹے کے ہاتھوں زیادتی کا نشانہ بننے والی ایک لڑکی کے گرد گھومتی ہے جو اپنے لئے انصاف مانگنے نکلتی ہے اور ’سیاسی دلدل‘ میں دھنستی چلی جاتی ہے۔ یہ کردار ماہرہ خان نے ادا کیا ہے۔
نامور پاکستانی اداکار اور وائس چیئرمین سنسر بورڈ پنجاب عثمان پیرزادہ نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے اس موضوع پر فون پر گفتگو میں کہا کہ’ورنہ‘ کی ریلیز پر پابندی کا معاملہ ’حساس‘ یا ’بولڈ‘ موضوع نہیں، بلکہ میرے نزدیک سیاسی زیادہ ہے۔ اس میں گورنر پنجاب، وہاں کے سیاست دانوں اور اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کے کرداروں کو سامنے لایا گیا ہے، جس کی وجہ سے فلم کو مشکلات کا سامنا ہے۔‘‘
وائس آف امریکہ کے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ’’ریپ جیسے بولڈ موضوع پر ماضی میں بھی بہت سی فلمیں بن چکی ہیں جن میں خود میری اہلیہ ثمینہ پیرزادہ کی فلم ’انتہا‘ بھی شامل ہے۔ اسے بھی سنسر بورڈ کی بے جا پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہاں تک کہ ہم نے عدالت کے دروازے کھٹکھائے جس کے بعد فیصلہ ہمارے حق میں آیا۔ اس لئے میرے خیال میں یہ معاملہ سیاسی ہے، بولڈ موضوع اس کی وجہ نہیں۔‘‘
انہوں نے اپنے بات کی تائید میں کہا کہ ’’دنیا کے بیشتر ممالک میں ایسا ہوتا ہے کہ فلم کو سیاسی وجوہات کی بنا پر روک دیا جاتا ہے۔ امریکہ ہو یا بھارت سنسر بورڈ پالیسی آڑے آنا معمول کی بات ہے۔ پھر جن سیاسی کرداروں کے عوض فلم کی ریلیز روکی گئی ہے ہمارے یہاں تو یہ عام بات ہے۔ سیاسی عہدوں پر رشتے داریاں نبھائی جاتی ہیں اور سیاسی لوگ بھی جرم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی تو نہیں۔ پھر اسے فلم کے پردے پر دکھانے میں کیا حرج ہے۔‘‘
انہوں نے امید ظاہر کی ’’فلم کو ایک آدھ لفظ یا کچھ تبدیلوں کے بعد ریلیز کی اجازت مل جائے گی۔ میں نے’ورنہ‘ کو ’ایڈیلٹ‘ سرٹیفکیٹ کے ساتھ ریلیز کی اجازت دی تھی۔ لیکن، فلم کے ڈائریکٹر، پروڈیوسر اور رائٹر نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ فلم کو ’یونیورسل‘ سرٹیفکیٹ کے ساتھ ریلیز کی اجازت دی جائے۔ فلم جب اسلام آباد سنسر بورڈ کے پاس پہنچی تو انہوں نے فلم کو ’ناموزوں‘ قرار دے کر اس پر پابندی لگا دی۔‘‘
دپیکا پڈکون بھی ماہرہ خان کی حمایتی
بھارتی اداکارہ دپیکا پڈکون بھی مائرہ خان کی حمایت میں بول پڑیں ہیں، حالانکہ ان دنوں خود ان کی اپنی فلم ’پدماوتی‘ کو بھی ریلیز میں نہایت مشکلات درپیش ہیں۔ سنجے لیلی بنسالی کی ’پدماوتی‘ ۔۔دپیکا پڈکون نے انٹرٹینمنٹ ویب سائٹ ’پنک ولا‘ سے انٹرویو میں کہا: ’’لوگ فلم کے بارے میں اندازے لگانے اور فیصلہ کرنے میں جلد بازی سے کام لیتے ہیں۔ بہت چھوٹا سا گروپ ہے جسے سینما کی طاقت کا اندازہ نہیں۔ سینما لوگوں کو قریب لاتا، انہیں ایک دوسرے سے جوڑتا ہے اور محبت پھیلانے کا ذریعہ ہے۔ کچھ لوگوں یہ سمجھنے کو تیار نہیں۔۔۔ افسوسناک ہے۔‘‘
ماہرہ خان کی فلم ’ورنہ‘ اور دپیکا کی ’پدما وتی‘ میں کئی باتیں مشترک ہیں۔ دونوں فلموں کی کہانی میں خواتین کا کردار مضبوط اور مرکزی ہے۔ شعیب منصور اور سنجے لیلی بھنسالی دونوں ہی بامقصد اور عام ڈگر سے ہٹ کر فلمیں بنانے کے لئے مشہور ہیں۔
’ورنہ‘ میں ریپ کو موضوع کو پیش کیا گیا ہے، جبکہ پدماوتی تاریخی پس منظر میں بنائی گئی ہے جس کی کہانی رانی پدماوتی کے گرد گھومتی ہے۔ دپیکا پدماوتی کا ٹائٹل رول نبھا رہی ہیں اور ان کا ساتھ دیا ہے رنویر سنگھ اور شاہد کپور نے۔
’پدماوتی‘ کی ریلیز کی تاریخ یکم دسمبر ہے۔ لیکن، حالات کو دیکھتے ہوئےاس کی وقت پر ریلیز غیر یقینی کا شکار دکھائی دیتی ہے۔