لندن —
نوے کا عشرہ پاکستانی پاپ میوزک کے حوالے سے ایک یادگار دور مانا جاتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاپ موسیقی میں ایک نئے رجحان بینڈ یا گروپ سنگنگ کو عوامی پذیرائی حاصل ہوئی ۔ اس وقت پی ٹی وی نےان نوجوان گلوکاروں کی حوصلہ افزائی کرنے کا بیڑا اٹھایا اور ایف ایم ریڈیو نے بھی وائٹل سائن ،آواز ، جوپیٹرز ،اسٹرنگز اور ایریڈ زون کے گانوں کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔
یاسر اختر نے اسی دور میں پاپ میوزک کی دنیا میں قدم رکھا انھوں اپنے دوستوں کامران جیلانی اور شارب جعفر کے ساتھ مل کرایک بینڈ 'دی ایریڈ زون ' بنایا جس کے گانوں ’کبھی تو ہو گا میرا ملن‘، ’او مائی لو‘، اے صنم،چاندنی نے انھیں راتوں رات نوجوان مقبول گکوکاروں کی صف میں لاکھڑا کیا ۔ جبکہ اس سے قبل وہ اپنی پہچان بطور اداکار سپرہٹ ڈرامہ سیریل دستک اور ساحرہ کاظمی کی سیریل تپش میں ایک جذباتی نوجوان کا کردار ادا کر کے بنا چکے تھے ۔ پی ٹی وی کے پہلے ویڈیو میوزک چارٹ (ایم سی سی ) سے انھوں نےہدایتکاری کے سفر کا آغاز کیا ۔ ان کے کامیاب ڈراموں میں فرنچ ٹوسٹ ،میرا گھر ایک ورپول ،جائیں کہاں ارمان اور تتلی شامل ہیں۔
ایسے میں جب یاسر پاکستانی شوبزنس میں اپنا ایک مقام بنا چکے تھے انھوں نے برطانیہ جا کر اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کا سوچا اور گذشتہ پانچ برسوں سے وہ ایک کامیاب برٹش ایشین فن کار کی حیثیت سے شوبزنس میں بطور اداکار ،گلوکار، ہدایتکار اور پروڈیوسر کےکام کر رہے ہیں ۔
وائس آف امریکہ سے یاسر اختر کا خصوصی انٹرویو تحریر شکل میں۔
سوال : وطن سے دوررہنے والے فن کار عموماً اپنے پیشے سے وابستہ نہیں رہتے پھر آپ نے یہ رسک کیسے لیا؟
جواب : جہاں تک اسی فیلڈ میں رہنے کا تعلق ہے تو یاسراختر۔ پیگاسیس پروڈکشن فلم کمپنی بنانے کا مقصد یہ ہی تھا کہ برطانیہ کے ایشین باصلاحیت فنکاروں کے ساتھ کام کیا جائے ۔ لہذا میں نے برطانیہ میں بھی اپنی اسی پہچان کے ساتھ کام شروع کیا۔ اسی کمپنی کے بینر سے میں برطانیہ میں مختصردورانیےکی فلمیں ،اشتہارات، ڈرامے اور گانوں کی ویڈیوز بناتا ہوں۔ جبکہ مانچسٹر سےایک ڈرامہ سیریل 'سرد آگ ' کے نام سے بنائی، جس کی کہانی پاکستانی نژاد برطانوی خواتین کے مسائل پر مبنی تھی یہ سیریل پاکستان میں کافی مقبول ہوئی۔
سوال : ایک فنکار کے لیےمداح اور شہرت دونوں ہی بہت ضروری ہیں کیا آپ برطانیہ میں اس کمی کو محسوس نہیں کرتے ہیں ؟
جواب : پاکستان کی یاد تو بہت آتی ہے لیکن مانچسٹر میں برطانوی نژاد پاکستانی شہریوں نے مجھے اس کمی کا احساس نہیں ہونے دیا ہے ۔چونکہ میں برطانیہ میں اور برطانیہ سے باہر ایشین شوز میں کئی مشہور گلوکارسونو نگم ،اپاچی، ہنٹرز، نوین کندرا،اسٹریونیشن اور ابرار الحق کے ساتھ پر فارم کرتا رہتا ہوں ۔ خدا کا شکر ہے کہ جہاں بھی جاتا ہوں لوگ مجھے پہچانتے ہیں اور بے حد پیار اور خلوص کا اظہار کرتے ہیں ۔
سوال :پاکستان اور برطانیہ میں ڈرامے کے حوالے سے کام کرنے میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں ؟
جواب : میں برطانیہ میں نئے چہروں کے ساتھ کام کرتا ہوں،اسی طرح جب میں پاکستان میں ڈرامے بناتا تھا اس وقت بھی نئے لوگوں کو موقع دیتا تھا ۔اپنی پہلی پاکستانی میوزیکل ٹیلی فلم سیریز'ٹپال سینما 'کی فلموں میں جویریہ عباسی، شمعون عباسی، سعدیہ امام ،ندا یاسر اور ہمایوں سعید جیسے مشہور اداکاروں کو متعارف کرایا ۔ جبکہ 'ایم سی سی' چارٹ میں شہزاد رائے، نجم شیراز، کومل رضوی اور فخر عالم کے علاوہ کئی کامیاب گلوکاروں کے گانوں کی ویڈیوز بنائیں ۔ اسی طرح برطانیہ میں کیز خان ، ناصر خان ، ریحان صدیقی اور بہت سے مقبول برطانوی ایشین گلوکاروں کے ساتھ کام کر رہا ہوں ۔ البتہ مانچسٹر میں بیرونی عکسبندی کرتے ہوئے مجھے پاکستان کی گرمیاں اور پسینہ یاد آتا ہےہنستے ہوئے یہاں تو پسینہ نکالنے کے لیے مجھے جم جانا پڑتا ہے۔
سوال: کیا گلیمر آج کے ڈرامے کی ضرورت ہے؟
جواب: اگر آپ ٹی وی پر نظر آنے والے گلیمر کی بات کر رہی ہیں تو وہ اس فیلڈ کی ضرورت ہے لیکن آج کل گلیمر کہاں نظر نہیں آتا ہے چاہے وہ کوئی آفس ہو یا کوئی بڑا ادارہ ہر جگہ لڑکیاں روزمرہ اتنے ہی فیشن ایبل کپڑے استعمال کر رہی ہیں ۔
سوال: آج کل شو بزنس میں جو بھی کام کیا جارہا ہے اس کا مقصد ریٹنگ حاصل کرنا ہوتا ہے تو کیا آپ کے خیال میں معیار پر سمجھوتہ کر لیا گیا ہے ؟
جواب : دیکھا جائے تو ساری دنیا کا میڈیا ریٹنگ کی دوڑ میں شامل ہے یہاں تک کہ، اچھے اور منجھے ہوئے اداکاروں کو بھی سوشل ویب سائٹس اور ایس ایم ایس کا سہارا لینا پڑتا ہے جہاں وہ اپنے چاہنے والوں اور دوست احباب کو بتاتے ہیں کہ فلاں چینل پر ان کا نیا ڈرامہ دکھایا جا رہا ہے ۔ کیونکہ بیشتر اداکار اور اداکارائیں بہت سے چینلوں پر ایک ساتھ کام کر رہے ہیں اس لیے ڈراموں کے معیار پر بھی سمجھوتا کر لیا جاتا ہے ۔
شو بزنس کی دنیا اب مکمل طور پرتبدیل ہو چکی ہے ہمارے وقت میں صرف پی ٹی وی ایک واحد پلیٹ فارم تھا جہاں اپنا کام پیش کرنا اور اسے منوانا آسان نہیں ہوتا تھا کیونکہ با صلاحیت لوگوں کی کمی نہیں تھی اس لیے راتوں رات شہرت کا حصول ممکن نہیں تھا ،مگر اب تو ایک سنگل چارٹ کے ذریعے ہی شہرت کمانے کا رواج عام ہو گیا ہے ۔ ذرائع ابلاغ سے لے کر یو ٹیوب ،سوشل میڈیا تک تمام ذرائع کو جلد از جلد مقبولیت حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے ،جس کی مثال گنگم اسٹائل،کولاویری جیسے گانے ہیں۔
سوال: کیا آپ ایشین کمیونٹی کے علاوہ برطانوی اداروں کے لیے بھی کام کر رہے ہیں ؟
جواب: حال ہی میں مجھے برطانیہ کے قومی اداروں کے لیے کام کرنے کا موقع ملاہےجن میں برطانوی ادارہ صحت' این ایچ ایس ' کے لیے 'باول کینسر 'سے آگاہی پر مبنی چار زبانوں پر مشتمل مختصر فلم بنائی ہے اس کے علاوہ مانچسٹر سٹی کونسل کےلیے مختصر دورانیہ کی فلمیں بناتا ہوں جو ذیادہ ترمسلم خواتین کی جبری شادی ، گھریلو تشدد ، ڈرگ اڈیکشن جیسے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے بنائی جاتی ہیں ۔
سوال:خاندان میں کون کون ہے اور کچھ اپنے بچپن کے بارے میں بتائیے؟
جواب: میرے خاندان میں میری بیگم میری بیٹی اور ایک بیٹا ہیں جبکہ میری والدہ کے علاوہ ہم تین بھائی ہیں دو مجھ سے بڑے ہیں اور مجھ سے چھوٹی ایک بہن ہے شازیہ اختر جسے آپ سب دستک ڈرامے کی ہیروئن کی حیثیت سے جانتے ہیں ۔ میری کزن مہرین جبار ایک کامیاب ہدایتکارہ ہیں جبکہ میرے ماموں جاوید جبار ایک سیاست دان ،رائٹر ہیں ان ہی کی اشتہاری کمپنی سے میں نے فلم میکنگ ، اشتہارات اور مارکیٹنگ جیسی فیلڈ کا تجربہ حاصل کیا۔
سوال: کیا اپنی بہن اور کزن کو دیکھ کر اداکاری کا شوق ہوا ؟
جواب: میں بچپن سے ہی ماڈلنگ کرتا تھا اور ایک فلم میں چائلڈ اداکار کے طور پر کام کر چکا تھا۔ میری عمر پندرہ سال تھی جب میرے والد کا انتقال ہوگیا اس کے بعد ہم معاشی طور پر مستحکم نہیں رہے ان ہی دنوں شازیہ اور مجھے ڈرامہ دستک کی پیشکش ہوئی اور بس ہم نے یہیں سے اپنے اداکاری کے سفر کا آغاز کیا ۔
سوال: کیا گلوکاری آپ کا پہلا شوق ہے؟
جواب: یہ میری والدہ کی خواہش تھی کہ میں ایک سنگر بنوں ویسے میں اپنے اسکول اور گھر کی تقریبات میں گانے گاتا تھا جب میں فرسٹ ائیر کا طالب علم تھا اس وقت' ایریڈ زون' کے نام سے پاپ سنگنگ کا باقاعدہ آغاز کیا۔
سوال: آپ کے ڈراموں اور گانوں کی ویڈیوز میں جذباتی مناظر زیادہ فلمائے جاتے ہیں اس کی وجہ ؟
جواب: شاید میرے اندر ایک حساس یاسر موجود ہے جو ہر بات کو گہرائی سے محسوس کرتا ہے اس کی وجہ وہ خلاء ہے جو میرے اندر میرے والد کی وفات کے بعد پیدا ہوا تھا۔
سوال: پاکستان میں ان دنوں بے شمار ڈرامے بن رہے ہیں کیا آپ ان کا حصہ نہیں بننا چاہتے ہیں ؟
جواب: دل تو بہت چاہتا ہے لیکن برطانیہ میں میری مصروفیات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے البتہ مستقبل میں ارادہ ہے کہ مشترکہ پروڈکشن کے کسی ایسے پروجیکٹ پر کام کروں کہ چار پانچ ماہ پاکستان میں رہ کر کام کروں ۔ فی الحال ایک ڈرامے کے پلاٹ پر کام کر رہا ہوں جو کہ، لندن میں رہنے والوں کی کہانی ہے۔ گلوکاری کے حوالے سے میں جلد ہی اپنے ایک گانے کی ویڈیو بنانے کا ارادہ کر رہا ہوں جو ممکن ہے میرے کم بیک کا سبب بن جائے ۔
یاسر اختر نے اسی دور میں پاپ میوزک کی دنیا میں قدم رکھا انھوں اپنے دوستوں کامران جیلانی اور شارب جعفر کے ساتھ مل کرایک بینڈ 'دی ایریڈ زون ' بنایا جس کے گانوں ’کبھی تو ہو گا میرا ملن‘، ’او مائی لو‘، اے صنم،چاندنی نے انھیں راتوں رات نوجوان مقبول گکوکاروں کی صف میں لاکھڑا کیا ۔ جبکہ اس سے قبل وہ اپنی پہچان بطور اداکار سپرہٹ ڈرامہ سیریل دستک اور ساحرہ کاظمی کی سیریل تپش میں ایک جذباتی نوجوان کا کردار ادا کر کے بنا چکے تھے ۔ پی ٹی وی کے پہلے ویڈیو میوزک چارٹ (ایم سی سی ) سے انھوں نےہدایتکاری کے سفر کا آغاز کیا ۔ ان کے کامیاب ڈراموں میں فرنچ ٹوسٹ ،میرا گھر ایک ورپول ،جائیں کہاں ارمان اور تتلی شامل ہیں۔
ایسے میں جب یاسر پاکستانی شوبزنس میں اپنا ایک مقام بنا چکے تھے انھوں نے برطانیہ جا کر اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کا سوچا اور گذشتہ پانچ برسوں سے وہ ایک کامیاب برٹش ایشین فن کار کی حیثیت سے شوبزنس میں بطور اداکار ،گلوکار، ہدایتکار اور پروڈیوسر کےکام کر رہے ہیں ۔
وائس آف امریکہ سے یاسر اختر کا خصوصی انٹرویو تحریر شکل میں۔
سوال : وطن سے دوررہنے والے فن کار عموماً اپنے پیشے سے وابستہ نہیں رہتے پھر آپ نے یہ رسک کیسے لیا؟
جواب : جہاں تک اسی فیلڈ میں رہنے کا تعلق ہے تو یاسراختر۔ پیگاسیس پروڈکشن فلم کمپنی بنانے کا مقصد یہ ہی تھا کہ برطانیہ کے ایشین باصلاحیت فنکاروں کے ساتھ کام کیا جائے ۔ لہذا میں نے برطانیہ میں بھی اپنی اسی پہچان کے ساتھ کام شروع کیا۔ اسی کمپنی کے بینر سے میں برطانیہ میں مختصردورانیےکی فلمیں ،اشتہارات، ڈرامے اور گانوں کی ویڈیوز بناتا ہوں۔ جبکہ مانچسٹر سےایک ڈرامہ سیریل 'سرد آگ ' کے نام سے بنائی، جس کی کہانی پاکستانی نژاد برطانوی خواتین کے مسائل پر مبنی تھی یہ سیریل پاکستان میں کافی مقبول ہوئی۔
سوال : ایک فنکار کے لیےمداح اور شہرت دونوں ہی بہت ضروری ہیں کیا آپ برطانیہ میں اس کمی کو محسوس نہیں کرتے ہیں ؟
جواب : پاکستان کی یاد تو بہت آتی ہے لیکن مانچسٹر میں برطانوی نژاد پاکستانی شہریوں نے مجھے اس کمی کا احساس نہیں ہونے دیا ہے ۔چونکہ میں برطانیہ میں اور برطانیہ سے باہر ایشین شوز میں کئی مشہور گلوکارسونو نگم ،اپاچی، ہنٹرز، نوین کندرا،اسٹریونیشن اور ابرار الحق کے ساتھ پر فارم کرتا رہتا ہوں ۔ خدا کا شکر ہے کہ جہاں بھی جاتا ہوں لوگ مجھے پہچانتے ہیں اور بے حد پیار اور خلوص کا اظہار کرتے ہیں ۔
سوال :پاکستان اور برطانیہ میں ڈرامے کے حوالے سے کام کرنے میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں ؟
جواب : میں برطانیہ میں نئے چہروں کے ساتھ کام کرتا ہوں،اسی طرح جب میں پاکستان میں ڈرامے بناتا تھا اس وقت بھی نئے لوگوں کو موقع دیتا تھا ۔اپنی پہلی پاکستانی میوزیکل ٹیلی فلم سیریز'ٹپال سینما 'کی فلموں میں جویریہ عباسی، شمعون عباسی، سعدیہ امام ،ندا یاسر اور ہمایوں سعید جیسے مشہور اداکاروں کو متعارف کرایا ۔ جبکہ 'ایم سی سی' چارٹ میں شہزاد رائے، نجم شیراز، کومل رضوی اور فخر عالم کے علاوہ کئی کامیاب گلوکاروں کے گانوں کی ویڈیوز بنائیں ۔ اسی طرح برطانیہ میں کیز خان ، ناصر خان ، ریحان صدیقی اور بہت سے مقبول برطانوی ایشین گلوکاروں کے ساتھ کام کر رہا ہوں ۔ البتہ مانچسٹر میں بیرونی عکسبندی کرتے ہوئے مجھے پاکستان کی گرمیاں اور پسینہ یاد آتا ہےہنستے ہوئے یہاں تو پسینہ نکالنے کے لیے مجھے جم جانا پڑتا ہے۔
سوال: کیا گلیمر آج کے ڈرامے کی ضرورت ہے؟
جواب: اگر آپ ٹی وی پر نظر آنے والے گلیمر کی بات کر رہی ہیں تو وہ اس فیلڈ کی ضرورت ہے لیکن آج کل گلیمر کہاں نظر نہیں آتا ہے چاہے وہ کوئی آفس ہو یا کوئی بڑا ادارہ ہر جگہ لڑکیاں روزمرہ اتنے ہی فیشن ایبل کپڑے استعمال کر رہی ہیں ۔
سوال: آج کل شو بزنس میں جو بھی کام کیا جارہا ہے اس کا مقصد ریٹنگ حاصل کرنا ہوتا ہے تو کیا آپ کے خیال میں معیار پر سمجھوتہ کر لیا گیا ہے ؟
جواب : دیکھا جائے تو ساری دنیا کا میڈیا ریٹنگ کی دوڑ میں شامل ہے یہاں تک کہ، اچھے اور منجھے ہوئے اداکاروں کو بھی سوشل ویب سائٹس اور ایس ایم ایس کا سہارا لینا پڑتا ہے جہاں وہ اپنے چاہنے والوں اور دوست احباب کو بتاتے ہیں کہ فلاں چینل پر ان کا نیا ڈرامہ دکھایا جا رہا ہے ۔ کیونکہ بیشتر اداکار اور اداکارائیں بہت سے چینلوں پر ایک ساتھ کام کر رہے ہیں اس لیے ڈراموں کے معیار پر بھی سمجھوتا کر لیا جاتا ہے ۔
شو بزنس کی دنیا اب مکمل طور پرتبدیل ہو چکی ہے ہمارے وقت میں صرف پی ٹی وی ایک واحد پلیٹ فارم تھا جہاں اپنا کام پیش کرنا اور اسے منوانا آسان نہیں ہوتا تھا کیونکہ با صلاحیت لوگوں کی کمی نہیں تھی اس لیے راتوں رات شہرت کا حصول ممکن نہیں تھا ،مگر اب تو ایک سنگل چارٹ کے ذریعے ہی شہرت کمانے کا رواج عام ہو گیا ہے ۔ ذرائع ابلاغ سے لے کر یو ٹیوب ،سوشل میڈیا تک تمام ذرائع کو جلد از جلد مقبولیت حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے ،جس کی مثال گنگم اسٹائل،کولاویری جیسے گانے ہیں۔
سوال: کیا آپ ایشین کمیونٹی کے علاوہ برطانوی اداروں کے لیے بھی کام کر رہے ہیں ؟
جواب: حال ہی میں مجھے برطانیہ کے قومی اداروں کے لیے کام کرنے کا موقع ملاہےجن میں برطانوی ادارہ صحت' این ایچ ایس ' کے لیے 'باول کینسر 'سے آگاہی پر مبنی چار زبانوں پر مشتمل مختصر فلم بنائی ہے اس کے علاوہ مانچسٹر سٹی کونسل کےلیے مختصر دورانیہ کی فلمیں بناتا ہوں جو ذیادہ ترمسلم خواتین کی جبری شادی ، گھریلو تشدد ، ڈرگ اڈیکشن جیسے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے بنائی جاتی ہیں ۔
سوال:خاندان میں کون کون ہے اور کچھ اپنے بچپن کے بارے میں بتائیے؟
جواب: میرے خاندان میں میری بیگم میری بیٹی اور ایک بیٹا ہیں جبکہ میری والدہ کے علاوہ ہم تین بھائی ہیں دو مجھ سے بڑے ہیں اور مجھ سے چھوٹی ایک بہن ہے شازیہ اختر جسے آپ سب دستک ڈرامے کی ہیروئن کی حیثیت سے جانتے ہیں ۔ میری کزن مہرین جبار ایک کامیاب ہدایتکارہ ہیں جبکہ میرے ماموں جاوید جبار ایک سیاست دان ،رائٹر ہیں ان ہی کی اشتہاری کمپنی سے میں نے فلم میکنگ ، اشتہارات اور مارکیٹنگ جیسی فیلڈ کا تجربہ حاصل کیا۔
سوال: کیا اپنی بہن اور کزن کو دیکھ کر اداکاری کا شوق ہوا ؟
جواب: میں بچپن سے ہی ماڈلنگ کرتا تھا اور ایک فلم میں چائلڈ اداکار کے طور پر کام کر چکا تھا۔ میری عمر پندرہ سال تھی جب میرے والد کا انتقال ہوگیا اس کے بعد ہم معاشی طور پر مستحکم نہیں رہے ان ہی دنوں شازیہ اور مجھے ڈرامہ دستک کی پیشکش ہوئی اور بس ہم نے یہیں سے اپنے اداکاری کے سفر کا آغاز کیا ۔
سوال: کیا گلوکاری آپ کا پہلا شوق ہے؟
جواب: یہ میری والدہ کی خواہش تھی کہ میں ایک سنگر بنوں ویسے میں اپنے اسکول اور گھر کی تقریبات میں گانے گاتا تھا جب میں فرسٹ ائیر کا طالب علم تھا اس وقت' ایریڈ زون' کے نام سے پاپ سنگنگ کا باقاعدہ آغاز کیا۔
سوال: آپ کے ڈراموں اور گانوں کی ویڈیوز میں جذباتی مناظر زیادہ فلمائے جاتے ہیں اس کی وجہ ؟
جواب: شاید میرے اندر ایک حساس یاسر موجود ہے جو ہر بات کو گہرائی سے محسوس کرتا ہے اس کی وجہ وہ خلاء ہے جو میرے اندر میرے والد کی وفات کے بعد پیدا ہوا تھا۔
سوال: پاکستان میں ان دنوں بے شمار ڈرامے بن رہے ہیں کیا آپ ان کا حصہ نہیں بننا چاہتے ہیں ؟
جواب: دل تو بہت چاہتا ہے لیکن برطانیہ میں میری مصروفیات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے البتہ مستقبل میں ارادہ ہے کہ مشترکہ پروڈکشن کے کسی ایسے پروجیکٹ پر کام کروں کہ چار پانچ ماہ پاکستان میں رہ کر کام کروں ۔ فی الحال ایک ڈرامے کے پلاٹ پر کام کر رہا ہوں جو کہ، لندن میں رہنے والوں کی کہانی ہے۔ گلوکاری کے حوالے سے میں جلد ہی اپنے ایک گانے کی ویڈیو بنانے کا ارادہ کر رہا ہوں جو ممکن ہے میرے کم بیک کا سبب بن جائے ۔