آرزو کا نام سید انور حسین تھا ۔ ان کی پیدائش 16 فروری 1873 کو لکھنو کے ایک متمول خاندان میں ہوئی تھی ۔ ان کے والد میر ذاکر حسین یاس بھی شاعر تھے اس لئے انور حسین بچپن سے ہی شاعری کی جانب راغب ہو گئے اور شاگردی قادر الکلام شاعر جلال لکھنوی کی اختیار کی ۔
علامہ آرزو لکھنوی کی شخصیت ہشت پہل تھی ۔ انہوں نے صرف غزل گوئی نہیں کی ان کو شاعری کی تمام اصناف غزل گوئی ، مرثیہ گوئی ، نعت گوئی ، سلام گوئی ، قصیدہ گوئی ، مثنوی نگاری ، گیت ، رباعی اور تاریخ گوئی پر بھی درک حاصل تھا ۔ اس کے علاوہ وہ نثر پر بھی زبردست قدرت رکھتے تھے ۔ جہاں انہوں نے اسٹیج ڈرامے لکھے اور بر جستہ مکالموں کی تکمیل کی وہیں انہوں نے دو درجن سے زائد فلموں کے گانے اور مکالمے بھی لکھے تھے ۔
ان فلموں کے گانے اپنے زمانے میں بے حد مقبول ہوئے تھے ۔
دنیا میں ہوں دنیا کا طلبگار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
6 جنوری سنہ 1991کو آرزو ایک مشاعرے میں شرکت کی غرض سے کراچی پاکستان گئے تھے ۔ ریڈیو پاکستان کے کنٹرولر سید ذوالفقار علی بخاری نے ان کی خدمات حاصل کرلیں۔ مگر پاکستان میں ان کا قیام بہت ہی مختصر رہا ۔ 16 اپریل سنہ 1991کو کراچی میں ان کا انتقال ہو گیا اور وہیں ان کی تدفین عمل میں آئی ۔
علامہ آرزو لکھنوی بچپن سے ہی قادر الکلام شاعر تھے ۔ کم عمری میں ہی ایک استاد نے ان کو ایک مصرعہ طرح دے کر چیلنج کیا کہ اس طرح میں زلف کی رعایت کے بغیر دو د ن کے اندر ایک شعر بھی کہہ دو تو ہم تمہیں شاعر مان لیں گے ۔ انہوں نے دو دن تو کیا محض چند گھنٹوں میں گیارہ اشعار کی غزل کہہ کر سنا دی اور سب عش عش کر اٹھے ۔
رقیب اپنے بہت ہیں یہ اس کی ہے تعبیر
کہ روز آکے ڈراتے ہیں ہم کو خواب میں سانپ
ہمارا درد جگر آسماں کا تیر شہاب
مقابلے کو چلے سانپ کے جواب میں سانپ
علامہ آرزو لکھنوی کے کلام میں ندرت ہے ، اس کے علاوہ انہوں نے اردو شاعری کو اپنی زمین سے جوڑنے کی کوشش کی ۔ اس لئے ان کی شاعری اس سر زمین سے پیوست نظر آتی ہے ۔ پروفیسر آل احمد سرور فرماتے ہیں:‘غزل کی زبان کو بول چال کی زبان سے قریب لا کر شاعر نے یہ واضح کیا ہے کہ شاعر کی بولی دنیا والوں کی بولی سے الگ نہیں ہو تی اور نہ وہ قدیم بحروں کی قید میں ہمیشہ اسیر رہتی ہے ۔ اسی لےے آرزو کے اشعار میں سادگی اور پر کاری ہے ۔’
ان کی غزل کے کچھ اشعار:
پھیر تو لیں گے چھری بھی زخم بھی کھائیں گے ہم
یوں نہ موت آئی تو پھر بے موت مر جائیں گے ہم
داغ اک سینے میں ہے اب دل کی جا یاد دش بخیر
ساتھ کیا لائے تھے کیا دنیا سے لے جائیں گے ہم
وقت رخصت مجھ سے دو دو کام ہو سکتے نہیں
ا ن کو روکیں گے کہ اپنے دل کو سمجھائیں گے ہم
۔۔۔۔۔۔۔
پھٹے دامن میں شرح حال چشم خوں فشاں رکھ دی
ورق تھا ایک جس پر لکھ کے ساری داستاں رکھ دی
وہ تھے پرسان حال سوز دل ہم نے زباں رکھ دی
کہ جلتی شمع لے کر اپنے ان کے درمیاں رکھ دی
کیا پھر تم کو روتا دیکھ کر دیدار کا وعدہ
پھر اک بہتے ہوئے پانی میں بنیاد مکاں رکھ دی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک منتظر وعدہ جا کر کہیں کیا بیٹھے
گھبرایا جو دل گھر میں دروازے پہ آبیٹھے
اک اپنے فغاںکش سے اللہ یہ بے دردی
سب کہتے ہیں ہاں ہاں ناوک وہ لگا بیٹھے
۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا انتظار کون کرے
زیست کا اعتبار کون کرے
ہاتھ بے چین ہے گریباں پاس
انتظار بہار کون کرے
غم دل سے ہے جب نہیں فرصت
تو غم روزگار کون کرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اظہار الم کے لئے پہلو نکل آئے
نالوں کو کیا ضبط تو آنسو نکل آئے