پاکستانی معاشرے میں بہت سے موضوعات ایسے ہیں کہ جن پر لوگ بات نہیں کرنا چاہتے۔ مثال کے طور پر بچوں کو جنسی تشدد سے بچانے کے لئے ان کی تعلیم و تربیت۔
اسکولوں میں بچوں کو ہر طرح کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں تاکہ جب زندگی میں موقع آئے تو بچہ اس کے لئے تیار ہو۔ لیکن جنسی معاملات کو نہ اسکول میں پڑھانا ضروری سمجھا جاتا ہے اور نہ گھر پر۔ عام طور پر بچہ اس بارے میں جو کچھ بھی سیکھتا ہے وہ گلی، محلے، فلموں، انٹرنیٹ یا دوستوں سے سیکھتا ہے۔ یعنی جب زندگی میں ایسا کوئی موقع آتا ہے تو بچے کو اس بارے میں کچھ پتا نہیں ہوتا اور وہ جو سیکھتا ہے اس موقع سے سیکھتا ہے جو جنسی تشدد کی شکل میں بھی ہوسکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ماں باپ یا استاد، بچے کو اس کی عمر کے حساب سے جنسی تعلیم دیتے ہیں تو وہ معلومات بچے کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ جبکہ جب دنیا بچے کو اس بارے میں کچھ سکھاتی ہے تو بد قسمتی سے وہ بچے سے فائدہ اٹھاتی ہے اور بچہ نقصان اٹھاتا ہے۔
کراچی کے ساوتھ سٹی ہسپتال میں ماہر نفسیات ڈاکٹر فیصل ممسا نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ماں باپ کو اپنے بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی یہ سکھانا چاہیے کہ اس بچے کے جسم کے کچھ حصے ایسے ہیں جنھیں کوئی اور نہیں چھو سکتا اور اگر کوئی ایسا کرنے کی کوشش کرے تو بچہ اس جگہ سے بھاگ جائے، شور مچائے یا پھر فوری طور پر اپنے والدین کو اس بارے میں بتائے۔
ڈاکٹر فیصل ممسا کا کہنا تھا کہ ماں باپ نہ صرف یہ کہ بچوں کو سکھائیں کہ بچہ کسی ٹافی یا گھومنے کی لالچ میں کسی کے ساتھ کہیں نہ جائے۔ مزید یہ کہ بچوں کو بتایا جائے کہ بڑے جب پیار کرتے ہیں تو ان کے چھونے میں اچھا اور برا چھونا کیا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ گھر کا کوئی نوکر، کوئی رشتہ دار، کوئی فیملی فرینڈ یا کوئی اجنبی بچے کو گود میں بٹھائے تو بچہ اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ محبت اور بد نیتی میں فرق کر سکے۔
ڈاکٹر فیصل کے بقول بچے کو یہ یقین دلایا جائے کہ ایسا کوئی حادثہ ہونے کی صورت میں اس بچے کو ذمہ دار نہیں ٹہرایا جائے گا چنانچہ بچے اپنے والدین سے کوئی بات نہ چھپائیں اور والدین بے عزتی کے خوف یا کسی مصلحت کے تحت چپ نہ رہیں بلکہ اپنے بچے کی بات پر بھروسہ کرتے ہوئے قدم اٹھائیں اور بدفعلی کرنے والے کو سزا دیں یا سزا دلوائیں ورنہ اس بچے کی نفسیات پر بہت برا اثر پڑ سکتا ہے۔
ڈاکٹر فیصل ممسا نے بتایا کہ کراچی میں صف اول کے کئی بڑے اسکولوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کو الگ الگ جنسی تعلیم دی جارہی ہے۔ جہاں ایسا نہیں ہو رہا وہاں والدین کو خود یہ کام کرنا چاہئے اور بچوں کو -بشمول لڑکوں کے - یہ بھی سکھانا چاہیے کہ لڑکیوں اور خواتین کی عزت کا کیسے خیال رکھنا چاہیے۔
پاکستان میں مختلف عمر کے لڑکے اور لڑکیاں ماضی میں بھی جنسی تشدد کا نشانہ بنتے رہے ہیں اور اس پر مختلف حلقے مختلف سطح پر آواز بھی اٹھاتے رہے ہیں۔
سول سوسائٹی کی جانب سے بچوں کو ان کی عمر کے اعتبار سے بتدریج تعلیمی اداروں میں جنسی تعلیم دینے کا مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔