پاکستان کی موسیقی نے لوک گیتوں ،لوک دھنوں اور پنجابی سرتال کے کاندھوں پر کامیانی کا سفر طے کیا ہے۔اس میں بھی پنجاب کے لوک گیتوں ، ٹپے اور ماہئیے کا حصہ بہت زیادہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کی موسیقی ’چوپالوں سے ”دل “ کے صحنوں تک راج کرتی نظر آتی ہے۔
یہ پنجابی موسیقی کے سرتال ہی ہیں کہ نئے زمانے کے تقاضوں کے مطابق پنجابی دھنوں کے ردھم نے جدید سازوں کے ساتھ ہم آہنگی پیداکی اور بھنگڑے کے روایتی اسلوب نے جدیدیت کے ساتھ نئی نسل کو اپنا دیوانہ بنا ڈالا۔
پاکستان میں ”منڈیو تے کڑیو ۔۔سبھ بھنگڑا پاوٴ“ کے ساتھ فخر عالم نے ایک نیا ٹرینڈ متعارف کرایا جس کو موسیقی سے وابستہ پرانی نسل کے افراد نے تنقید کا نشانہ بنایا توجدید دور کے نوجوانوں نے اسے خوب پذیرائی بخشی۔یہی وجہ ہے کہ ریپر فخرعالم کے پنجابی اور انگریزی زبان کی آمیزیش والے متعدد گیت مشہور ہوئے۔ان گیتوں کی تخلیق کا سہرا ہمیشہ فخر عالم کے سر سجے گا۔
فخر عالم کے ساتھ ساتھ ہی غالباً1995ء میں ایک اور نوجوان موسیقار اور گلوکار نے پاکستانی موسیقی میں اپنا نام کمایا۔ یہ تھے ابرار الحق۔ ان کے ابتدائی دور کے گیت ’اساں تے جاناں اے، بلو دے گھر‘نے وہ مقبولیت حاصل کی کہ اگلے پچھلے سب ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ ایک ہی گانے نے ابرارالحق کو راتوں رات سپر اسٹار بنادیا۔ اس دور میں جدھر جایئے بس ایک ہی آواز گونجتی تھی ”ٹکٹ کٹاوٴ لین بناوٴ۔“
ابرار الحق نے کامیابی کا یہ سفر جاری رکھا اور اس کے بعد آنے والے سالوں میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک ہٹ گانے دیئے ۔ مثلاً ”پریتو میرے نال ویاہ کرلو”آ جا ، بہہ جا سائیکل تے“،’ ’کڑیاں لاہور دیاں“، ”سانوں تیرے نال پیار ہو گیا“ ،’ ’نعرہ ساڈا عشق اے‘ ‘ ، ’جٹ چڑھیا کچہری، بلے او بلے“ وغیرہ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے ایک گانے” پریتو“ میں آج کے سپرہٹ اداکار علی ظفر نے اداکاری کی تھی۔
ابرار کے بعداس راہ میں آئے جواد احمد۔جواد نے پنجابی پاپ اور بھنگڑے کو اپنے انداز میں پیش کر کے بے پناہ داد وصول کی۔ سنجیدہ آواز کے مالک جواد نے شوخ پنجابی گانے گا کر اپنا ورسٹائل ہو نا ثابت کیا۔ ’او کہندی اے سیاں میں تیر ی آں‘، ’اوچیاں مجاجاں ‘، ’ بنتو دی جان ہاں میں‘ اور ’آ جا ہن ڈھولنا‘ جیسے گانوں نے جواد کی شہرت کو چار چاند لگا دئیے۔
پنجابی پاپ کی شہرت پاکستان سے شروع ہوئی تو بھارت میں اس کے رنگ میں رنگتاچلا گیا۔ وہاں پنجابی پاپ کنگ دلیر مہدی نے اپنے ہپ ہوپ پنجابی نمبرز سے دھوم مچا دی۔ان کے گائے پنجابی پاپ گانے اتنے مشہور ہوئے کہ انھیں بالی وڈ کی فلموں میں بھی شامل کیا گیا۔مثلاً ”بولو تار ا را را“،” ہو جائے گی بلے بلے“،” ڈر دی رب رب کر دی“،” ساڈے نال رہو گے تے عیش کرو گے“،” تنک تنک“ وغیرہ۔ ان گانوں کی فہرست بہت لمبی ہے۔
ہنس راج ہنس نے بھی اپنے گائے ہوئے پنجابی گانوں سے دنیا بھر میں شناخت بنائی اور پنجابی میوزک کے فروغ میں اپنا کردار ادا کیا۔ان کے چند مقبول گانوں میں’ تم با تم با تم‘،’پنجابیاں دی شان اکھ لڑ گئی‘، ’آجانچ لے‘، اور ’دل ٹوٹے ٹوٹے ہو گیا‘ شامل ہیں۔
بھارتی پنجابی بھنگڑے اور پاپ کا ایک اور مقبول نام ہے میکا سنگھ۔دلیر مہد ی کا چھوٹا بھائی ہونے کے باوجود میکاسنگھ نے اپنی محنت اور لگن سے بھارتی موسیقی کی دنیا میں اپنی ایک الگ پہچان بنائی ۔میکا کے مشہور گانوں میں شامل ہیں ’ موجاں ہی موجاں‘، ’تیرے آگے نئیں چلنی‘، اور ’گبرو ہور جگنی‘۔
پاکستانی نژاد عمران خان برطانیہ اور دنیا بھرمیں پنجابی بھنگڑے اور پاپ میں ایک نئی اور تازہ آواز کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں اور وہ نوجوان جو انگریزی کے سوا اپنی مادری زبان بھی مکمل طور پر سمجھ نہیں سکتے عمران کے ’ایمپلی فائر‘ پر جھومتے نظر آتے ہیں۔ عمران کے گائے گانے ’ایمپلی فائر‘ نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کرتے ہوئے کئی بین الالقوامی ایوارڈز میں نامزدگیاں اور ایوارڈ حاصل کئے۔عمران کے دیگر مشہور گانے ہیں ’ آ جا وے ماہی‘،’نِی نچ لے‘،’سوہنئے‘۔
پنجابی میوزک اپنے تیز ردھم اور بیٹ کی وجہ سے جلد مقبول ہونے کی منفرد صلاحیت رکھتی اور اسی بات کو مد نظر رکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ کئی برسوں تک پنجابی دھنیں ہی جدید موسیقی کے افق پر راج کریں گی۔