|
ویب ڈیسک __ری پبلکن امیدوار کیلی ایوٹ کی ریاست نیو ہیمپشر کے گورنر منتخب ہونے کے بعد آئندہ برس امریکہ میں خواتین ریاستی گورنر کی تعداد 13 ہو جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی 2022 میں 12 خواتین گورنر منتخب ہونے کا ریکارڈ بھی ٹوٹ گیا ہے۔
امریکہ میں ریاستوں کے گورنر براہ راست الیکشن کے ذریعے منتخب کیے جاتے ہیں۔ امریکی سیاست میں گورنر ایک بااختیار عہدہ ہے اور یہ ریاستی امور چلانے کے لیے اپنے تجربات کی روشنی میں پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں۔
امریکہ میں گزشتہ ہفتے پانچ نومبر کو صدارتی الیکشن کے ساتھ ساتھ 11 ریاستوں میں گورنر کے لیے بھی مقابلہ تھا اور انہی انتخابی معرکوں میں سے ایک میں کیلی ایوٹ نیو ہیمپشر کی گورنر بننے میں کام یاب ہوئی ہیں۔
رگٹرز سینٹر فور امریکن ویمن اینڈ پولیٹکس کی ڈائریکٹر کیلی ڈٹمر کا کہنا ہے کہ خواتین کے ان عہدوں پر منتخب ہونے سے بہت فرق پڑتا ہے اور خواتین کے سیاست اور خاص طور پر انتظامی قیادت میں ان کا کردار نارملائز کرنے میں مدد ملتی ہے۔ کیوں کہ بطور گورنر وہ خود آگے بڑھ کر قیادت کرتی ہیں محض ٹیم ممبر بن کر کام نہیں کر رہی ہوتیں۔
کیلی ایوٹ سابق سینیٹر ہیں اور انہوں نے ڈیمو کریٹک مدِ مقابل جوئس کریگ کو شکست دی ہے جو اس سے قبل نیو ہیمپشر کے سب سے بڑے شہر مانچسٹر کی سابق میئر ہیں۔
امریکہ کی 50 میں سے 18 ریاستیں ایسی ہیں جن میں کبھی کوئی خاتون گورنر منتخب نہیں ہوئی ہیں۔
ڈٹمر کا کہنا ہے کہ اس لیڈرشپ میں بھی خواتین کی نمائندگی کم ہے۔ 50 ریاستوں میں سے صرف 13 کی گورنر خواتین ہے جسے کافی نمائندگی نہیں کہا جا سکتا۔
نیو ہیمپشر میں مقابلہ کرنے والی گورنر کی دونوں خواتین امیدواروں کا کہنا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران ان کی صنف بحث کا موضوع نہیں بنی البتہ تولیدی حقوق کو بحث میں مرکزیت حاصل رہی۔
کیلی ایوٹ حلف اٹھانے کے بعد چھٹی ری پبلکن گورنر بن جائیں گی جب کہ دیگر آٹھ خواتین گورنر ڈیمو کریٹک پارٹی سے تعلق رکھتی ہیں۔
بعض مبصرین کی جانب سے خواتین گورنرز کی تعداد میں اضافے کو ایک ایسے وقت میں پیش رفت کے طور پر دیکھا جارہا ہے جب نائب صدر کاملا ہیرس کو امریکہ کی پہلی خاتون صدر بننے کی کوشش میں ناکامی ہوئی ہیں۔
کیلی ڈٹمر کا کہنا ہے: ’’میں یہ نہیں کہوں گی کہ کاملا ہیرس خاتون ہونے یا سیاہ فام اور جنوبی ایشیائی ہونے کی وجہ سے الیکشن ہار گئی ہیں۔‘‘
ان کے مطابق لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر ہم پوری تصویر دینا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ بات بھی کرنا ہو گی کہ صنف اور رنگ و نسل نے اس انتخابی مقابلے کی کس طرح صورت گری کی ہے، کس طرح یہ پہلو ووٹروں کی جانب سے کاملا کو دیکھنے کے انداز پر اثر انداز ہوئے ہیں اور کس طرح ان کے مخالفین اور میڈیا نے اس کی بنیاد پر ان سے برتاؤ کیا ہے۔
ڈٹمر کے مطابق اعلیٰ انتظامی عہدے جیسے صدارت، کمانڈر چیف وغیرہ کے ساتھ مردانگی کو جوڑا جاتا اور اس تاثر کو تبدیل کرنے کے لیے خواتین کو بہت محنت کرنا پڑے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ قانون ساز ایوانوں میں کامیابی، اسپیکر منتخب ہونے یا اہم قانون ساز کمیٹیوں کی سربراہی خواتین کی بڑی کامیابیاں ہیں تاہم انتظامی عہدوں سے متعلق خواتین کی اہلیت کے بارے میں تاثر تبدیل کرنے کے لیے ان کا اہم انتظامی عہدوں کے لیے میدان میں اترنا زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔
اس خبر لیے ایسوسی ایٹڈ پریس سے معلومات لی گئی ہیں۔
فورم