امریکہ میں رومن کیتھولک چرچ کو گزشتہ چند عشروں سے اہم مذہبی عہدوں پر تعیناتیوں میں مسائل کا سامنا ہے اور چرچ میں خدمات انجام دینے والے راہب اور راہباؤں کی اوسط عمر ستر سال یا اس سے بھی کچھ زیادہ ہے ۔حالیہ جائزوں کے مطابق امریکہ میں 30 سال سے کم عمر افراد میں کسی بھی باقاعدہ مذہب سے دلچسپ کم ہورہی ہے۔ وہاں حیرت کا پہلو یہ ہے کہ جنوبی امریکی ریاست ٹینیسی کے ایک کیتھولک چرچ میں ایک تہائی سے زیادہ سسٹرز کی عمر یں تیس سال سے کم ہیں۔
نیش ول ٹینیسی کا سینٹ سیسیلیا گرجا گھر ،دیکھنے میں اب بھی ویسا ہی ہے جیسا ڈیڑھ سو سال پہلے اپنے قیام کے وقت تھا۔ اب بھی وہاں رہنے والی راہبائیں جنہیں سسٹرز کہا جاتا ہے، روزانہ عبادت کے لیے پہلے کی طرح اکھٹی ہوتی ہیں ۔
اس چرچ میں پچھلے کئی عشروں میں پہلی مرتبہ اتنی بڑی تعداد میں نئی طالبات آئی ہیں ۔کانوینٹ کی ترجمان سسٹر کیتھرین میری کے مطابق پہلے سال کی طالبات کا یہ گروپ یہاں پڑھنے والی کل طالبات کی تعداد کا دس فیصد ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس وقت ہماری تعداد 270 ہے جو حالیہ دنوں میں بہت بڑھی ہے ۔ اس سال ہم نے 27 طالبات کو داخلہ دیا ، پچھلے سال یہ تعداد 23 تھی۔
پیو ریسرچ سینٹر کے گزشتہ سال کے ایک قومی سطح کے جائزے کے مطابق امریکہ میں 30 سال سے کم عمر شہریوں میں کسی بھی باقاعدہ مذہب سے تعلق کمزور ہوتا جارہا ہے۔
سسٹر کیتھرین کہتی ہیں کہ ڈیڑھ سو سال پہلے قائم کیے گئے اس کیتھولک ڈومینکن آرڈر نامی چرچ کا مقصد لوگوں کو ایک دوسرے کے کام آنے کی ترغیب دینا تھا۔
سسٹر کیتھرین میری کہتی ہیں کہ دنیا میں رونما ہونے والے بہت سے واقعات مذہب سے دوری کا نتیجہ ہیں
یہی وہ خواہش ہے جو پہلے سال کی طالبہ سسٹر کیلی ایڈمنڈز اس چرچ میں لانے کا سبب بنی۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے دل میں یہ خواہش اس وقت جاگی جب انہوں نے سڈنی یونیورسٹی کے کیمپس میں اس ڈومینکن چرچ کی سسٹرز کو قریب سے دیکھا ۔
کیلی کہتی ہیں کہ کیمپس میں انہیں راہباؤں کے لباس میں دیکھ کر مجھے اتنا اچھا لگا کہ میں نے انجنیئرنگ کا شعبہ چھوڑ کا راہبہ بننے کا فیصلہ کرلیا۔
سسٹر وکٹوریا میری وہاں دوسرے سال کی طالبہ ہیں ۔ انہوں نے بھی سول انجنیئرنگ میں ڈگری مکمل کرنے کے بعد راہبہ بننے کا فیصلہ کیا۔ لیکن یہاں آکر انہیں انسان سڑکوں اور پلوں سے زیادہ دلچسپ معلوم ہوئے ۔
وہ کہتی ہیں کہ چیزوں کے بجائے رشتوں کو اہمیت دینا اور میں کیا کرنا چاہتی ہوں، کی بجائے میں کیسا انسان بننا چاہتی ہوں ، میری زندگی میں آنے والی سب سے بڑی تبدیلی تھی۔
اس چرچ کی راہبات ہر وقت کام اور عبادات ہی نہیں کرتیں ۔بلکہ انہیں زندگی کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کا وقت بھی مل رہا ہے۔
سسٹر کیلی کہتی ہیں کہ ہمارے پاس چرچ سے باہر جاکرخدا کی تخلیق کردہ دنیا کو سراہنے کے لیے بھی بہت سا وقت ہے۔ ہم بہت سی کھیلوں میں بھی حصہ لیتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ خوش گپیاں بھی کرتے ہیں۔
سسٹر کیلی کہتی ہیں کہ مذہب کی طرف ان کا سفر انوکھا نہیں ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ دنیا میں ہر جگہ لوگ مذہب کی جانب پلٹ رہے ہیں ۔
ان راہبات کو مواقعوں کی کمی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ سینٹ سیسیلیا کی ڈومینکن سسٹرز امریکہ اور آسٹریلیا میں بےحد سرگرم ہیں اور ان دونوں ملکوں کے 34 سکولوں میں 13 ہزار بچوں کو تعلیم دے رہی ہیں ۔