رسائی کے لنکس

روہنگیا پناہ گزینوں کی واپسی، ورکنگ گروپ تشکیل دینے پر اتفاق


بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ ابوالحسن محمود علی نے کہا ہے کہ بات چیت میں روہنگیا پناہ گزینوں کی میانمار واپسی کیلئے منصوبہ تیار کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے۔

بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ ابوالحسن محمود علی کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش اور مینمار نے روہنگیا پناہ گزینوں کی بنگلہ دیش سے میانمار واپسی کے بارے میں ایک ورکنگ گروپ تشکیل دینے پر اتفاق کر لیا ہے۔ مینمار میں فوج کی طرف سے روہنگیا افراد کے خلاف پر تشدد کارروائی سے بچنے کیلئے 500,000 سے زائد روہنگیا افراد بھاگ کر بنگلہ دیش پہنچ گئے تھے۔

اقوام متحدہ نے اگست کے بعد سے 507,000 روہنگیا افراد کی نقل مکانی کو دنیا کی سب سے زیادہ تیزی سے رونما ہونے والی ہنگامی صورت حال قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مینمار میں اکثریتی بدھ برادری اقلیتی روہنگیا مسلمان برابری کی نسل کشی میں مصروف ہے۔

مینمار اس الزام کی صحت سے انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کی مسلح افواج روہنگیا دہشت گردوں کے ساتھ بر سرپیکار ہے جو 25 اگست کو سیکورٹی فورسز پر مربوط حملے کے بعد سے پرتشدد کارروائیاں کر رہے ہیں۔

مینمار کا کہا ہے کہ اب تک 500 افراد ان باغیوں کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے ہیں۔ مینمار کی حکومت روہنگیا باغیوں پر یہ الزام بھی لگاتی ہے کہ اُنہوں نے ریخائن ریاست میں 400 روہنگیا دیہات میں سے نصف کو جلا کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔

بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ ابوالحسن محمود علی نے کہا ہے کہ اُنہوں نے اور مینمار کے سرکاری اہلکار کائیو ٹنٹ سوے کے در میان بات چیت میں روہنگیا پناہ گزینوں کی مینمار واپسی کیلئے منصوبہ تیار کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ علی کا کہنا ہے کہ وہ اس بحران کے پر امن حل کی توقع رکھتے ہیں۔

کائیو ٹنت سوے نے اس سلسلے میں ذرائع ابلاغ کے نمائیندوں سے بات نہیں کی ہے اور مینمار کے سرکاری ترجمان سے بھی اس کی تصدیق کیلئے فوری رابطہ نہیں ہو سکا ہے۔

بنگلادیش میں داخل ہونے والے روہنگیا پناہ گزیں۔ فائل فوٹو
بنگلادیش میں داخل ہونے والے روہنگیا پناہ گزیں۔ فائل فوٹو

گزشتہ چند برسوں کے دوران روہنگیا کے بہت سے افراد نے تشدد سے بچنے کیلئے بنگلہ دیش میں پناہ لی ہے۔ اُنہوں نے خاص طور پر 1970 اور1990 کی دہائی کے دوران اور پھر گزشتہ برس اکتوبر میں روہنگیا کے باغیوں کی طرف سے سیکورٹی فورسز پر چھوٹے پیمانے کے حملوں کے بعد سے بنگلہ دیش میں پناہ لی ہے۔

دونوں ہمسایہ ممالک نے پہلے بھی متعدد بار روہنگیا افراد کی واپسی کے بارے میں اتفاق کیا ہے ۔ تاہم مینمار میں روہنگیا افراد کی حیثیت کے بارے میں بنیادی مسئلے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

روہنگیا افراد شہریت کے حق سے محروم ہیں اور اُنہیں غیر قانونی تارکین وطن کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔

پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر فیلپو گرانڈی نے جنیوا کے ایک اجلاس میں کہا ہے کہ روہنگیا افراد کی بے وطنیت کے مسئلے کو حل ہونا چاہئیے۔

آؤنگ سن سوچی نے 2015 میں ہونے والے عام انتخابات میں فتح حاصل کی تھی اور حکومت بنانے کے بعد سے اُنہیں روہنگیا اقلیت کے حوالے سے سب سے بڑے مسئلے کا سامنا ہے۔نوبل انعام کی حامل سو چی نے گزشتہ ماہ قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مینمار 1993 میں بنگلہ دیش کے ساتھ طے ہونے والے سمجھوتے کے تحت روہنگیا افراد کی تصدیق کا عمل شروع کرنے پر رضامند ہے۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ مینمار سے جانے والے پناہ گزینوں کو واپس قبول کر لیا جائےگا۔ تاہم بہت سے روہنگیا پناہ گزینوں نے واپس مینمار جانے کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کیا ہے کیونکہ اُن کے بقول مینمار واپسی کیلئے حکام جن دستاویزات کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ اُن کے پاس موجود ہی نہیں ہیں۔

مینمار کی حکومت نے اقوام متحدہ کے اہلکاروں کو صورت حال کا جائزہ لینے کی خاطر مینمار آنے کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا ہے ۔ تاہم سو چی نے اقوام متحدہ کے سابق سیکٹری جنرل کوفی انان کی سربراہی میں ایک ٹیم کو ریخائن کے مسئلے کے حل کیلئے تجاویز مرتب کرنے کو کہا تھا۔ اس کمشن نے 24 اگست کو اپنی تجاویز پیش کر دی تھیں۔

تجاویز میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کیلئے سزا تجویز کرنے علاوہ سفارش کی گئی ہے کہ آزادانہ نقل و حرکت کو یقینی بنایا جائے اور روہنگیا افراد کی غربت میں کمی کی خاطر ریخائن کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی جائے۔

مینمار میں حکومت نے سفارتکاروں کو صورت حال کا جائزہ لینے کی خاطر ریخائن کا دورہ کرایا۔ سوٹزرلینڈ کے سفیر پال سیگر کا کہنا تھا کہ ماؤنگ ڈاؤ اب تباہ حال اور سنسان شہر دکھائی دیتا ہے۔

مغربی ممالک کے ناقدین نے آؤنگ سن سو چی پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ فوجی تشدد کا دفاع کر رہی ہیں اور اس تشدد کے شکار اقلیتی روہنگیا افراد کی حمایت میں کچھ نہیں کہتیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ مینمار کی فوج روہنگیا افراد کی مخالفت کرتی ہے اور سو چی کو فوج پر کوئی کنٹرول حاصل نہیں ہے۔

XS
SM
MD
LG