امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ روس کے خلاف معاشی تعزیرات کارگر ثابت ہو رہی ہیں اور، بقول اُن کے، ’روس یوکرین کو فتح کرنےکی قیمت ادا کر رہا ہے‘۔
مسٹر اوباما نے اِس ہفتے کی اپنی ایک تقریر میں کہا ہے کہ ’سرمایہ باہر جا رہا ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری دور بھاگ رہی ہے، اس لیے کہ روس کے رویے کو دیکھتے ہوئے، سرمایہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ روس میں سرمایہ کاری نہیں ہو سکتی۔‘
صدر کے مطابق، روسی معیشت کساد بازاری کا شکار ہوگئی ہے، توانائی کی پیداوار جو روسی معشیت کی روح رواں ہے سست ہوگئی ہے، اُس کی ساکھ کی سطح گر چکی ہے اور ملبہ گر کر اپنی نچلی ترین نہج پر پہنچ چکا ہے۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ یوکرین میں روس کے اقدامات کے نتیجے میں روس کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
تاہم، ’امریکن انٹرپرائیز انسٹی ٹیوٹ‘ کے تحقیقی گروپ میں روسی تعلیمات کے سربراہ، لیون اَرون نے متنبہ کیا ہے کہ تعزیرات کے اثرات نمایاں ہونے میں برس لگ جائیں گے۔
اَرون نے کہا کہ معاشی پابندیاں مؤثر ثابت ہونے کے لیے ضروری ہے کہ خصوصی طور پر روسی تیل اور گیس کی صنعت میں سرمایہ کاری روک دی جائے۔
امریکہ کے سابق معاون وزیر خارجہ اور ’ہارورڈ کنیڈی اسکول آف گورنمنٹ‘ میں پروفیسر، نکولس برنز کے بقول، اگر یورپی لوگ روس کے خلاف بامعنی مالی تعزیرات نافذ ہونے سے اتفاق کریں، اُس سے کہیں زیادہ شدید جو گذشتہ پانچ ماہ کے دوران لگائی گئیں، یہی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے مسٹر پیوٹن کا دھیان مبذول کرانے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔
برنز نے کہا کہ روس کی معیشت کا انحصار یورپی معیشتوں پر ہے اور بین الاقوامی سرمایہ آنے پر ہے، خاص طور پر وہ جو یورپی ملکوں کی تیار کردہ مصنوعات کی درآمد پر مشتمل ہیں۔