واشنگٹن —
کہانی تو سادہ سی ہے ۔۔۔ بالکل عام سی ۔۔۔ آپ کے اور میرے اسی معاشرے کی ۔۔۔ ہمارے اپنے وطن کی ۔۔۔ مملکت ِ خداداد ِ پاکستان کی۔
کہانی کا خلاصہ کچھ یوں ہے ۔۔۔ دلہن بنی ایک لڑکی، دلہن کو چھیڑتا وڈیرے کا نوکر، نوکر کی بدتمیزی پر اپنی بہن کی حفاظت کرتا شاہ زیب، شاہ زیب کی ’بدتمیزی‘ پر اسے موت کے گھاٹ اتارتا وڈیرے کا بیٹا، ٹی وی پر اپنے جوان اور اکلوتے بیٹے کی موت پر انصاف مانگتا سابق ڈی ایس پی پولیس اورنگزیب خان۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں روزانہ ایسی کتنی ہی کہانیاں جنم لیتی ہیں اور اپنی موت آپ ہی مرجاتی ہیں ۔۔۔ نیا کیا ہے اس کہانی میں؟ بس ایک عام سی قتل کی واردات ہی تو ہے؟ جسے سمجھنے کے لیے نہ تو شرلک ہومز جیسی ہوشیاری درکار ہے نہ ہی جگسا پزل کے ٹکڑے جوڑ کر سرا تلاش کرنے کی۔
تو پھر گرین اچ یونیورسٹی میں میڈیا سائنسز پڑھنے والے بیس سالہ شاہ زیب کے جسم میں اترنے والی گولیوں کا ماتم کیوں؟ کیا شہر ِکراچی نے کبھی اس سے پہلے جوان لاشوں کو کندھا نہیں دیا؟
آئی جی سندھ فیاض لغاری بتاتے ہیں کہ 2012ء میں کراچی میں 1702 افراد کو قتل کیا گیا۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے مطابق یہ تعداد دو ہزار کے لگ بھگ ہے۔ الجزیرہ ٹی وی کی ویب سائیٹ دنیا کے سب سے بڑے 13 شہروں میں سے کراچی کو خطرناک ترین قرار دیتی ہے۔ دنیا ٹی وی کے مطابق گزشتہ برس کراچی میں 553 بوری بند لاشیں برآمد ہوئیں۔ بھتہ وصولی اور بھتہ مافیا کے اعداد دستیاب نہیں۔ فیکٹریوں میں 'اچانک' بھڑک اٹھنے والی بھیانک آگ کے واقعات تو اب جیسے معمول کی بات ہیں۔
اور بس انہی معمولی واقعات میں سے ایک واقعہ ہے اس بدنصیب لڑکے کا جو اپنی بہن کے ولیمے سے واپس آیا اور ’ٹارگٹ کلنگ‘ کا نشانہ بن گیا۔ لیکن اس واقعے کے معمولی ہونے کے باوجود اہلِ پاکستان کی ’تشفی‘ کے بہت سے پہلو ہیں۔
چیف جسٹس صاحب نے اس قتل کا از خود نوٹس لے لیا ہے۔
سنا ہے خاصی پس و پیش اور معروف سیاستدان نبیل گبول کے اثر و رسوخ استعمال کرنے کے بعد درخشاں پولیس سٹیشن، کراچی میں بالآخر قتل کی ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔ مبارک۔
ملک بھر اور بالخصوص کراچی کی سرکردہ سیاسی جماعتوں نے شاہ زیب کے قتل کی مذمت کی ہے۔ جبکہ سول سوسائٹی نے کراچی پریس کلب کے باہر ملزمان کے خلاف پلے کارڈز اٹھا کر اور موم بتیاں جلا کر اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ مبارک۔
شاہ زیب کے قتل کی مذمت پر فیس بک پر ایک ’پیج‘ بھی بنایا جا چکا ہے، جسے اب تک چھیاسی ہزار سے زائد لوگ ’لائیک‘ بھی کر چکے ہیں اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مبارک۔
اور سب سے بڑھ کر قتل کے اہم ترین ملزم شاہ رخ جتوئی کے والد نے ٹی وی پر آکر ایک بیان میں یہ نوید سنائی ہے کہ شاہ رخ اس واقعے کی رات ہی اپنی پڑھائی مکمل کرنے کی غرض سے بیرونِ ملک جا چکا ہے۔ بہت ہی مبارک !!!
نہ جانے کیوں پچھلے ایک ہفتے سے شاہ زیب کے قتل کا سن کر دل پہ جیسے ایک بوجھ سا دھرا ہے جو سرکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ کبھی سوچتی ہوں کہ بھلا ایک جوشیلے بیس سالہ لڑکے کے وہم و گمان میں بھی ہوگا کہ اپنی دلہن بنی بہن کو مبینہ طور پر ایک وڈیرے کے بدمست اور بدتمیز نوکر سے بچانے کا تاوان اسے اپنی موت کی صورت ادا کرنا پڑے گا ۔۔۔ اور وہ خود بھی شہر ِ کراچی میں روز جنم لینے والی ایسی سینکڑوں کہانیوں میں سے ایک کہانی کا کردار بن جائے گا؟
ایک ایسی کہانی جو چند دن میڈیا پر ہاہاکار مچانے کے بعد آہستہ آہستہ دیگر اہم خبروں میں دفن ہوتی چلی جائے گی۔ اور رہی بات معاشرے کی ۔۔۔ تو معاشرے کی یادداشت میں بھلا ایسی کہانیوں کو جگہ دینے کی گنجائش ہی کہاں ہوتی ہے؟
آئیے ہم بھی آنکھیں بند کرلیں، ہونٹوں پر قفل لگائیں اور دلوں پر مہر۔۔۔ اور تہیہ کر لیں کہ بے حسی کی وہ اجتماعی چادر جو ہم نے من حیث القوم اوڑھ رکھی ہے اس کا کوئی کونہ اٹھا کر تازہ ہوا کا ایسا کوئی جھونکا اندر نہ آنے دیں گے جو ہمارے ضمیر کو بیدار کر سکے۔
آئیے شتر مرغ کی طرح ریت میں دھنسا اپنا سر تھوڑا اور دھنسالیں ۔۔۔ شاہ زیب کے قتل پر معاشرے کی روایتی بے حسی، وڈیرہ سسٹم اور نا انصافی کے ناسور پر لعنت ملامت کریں ۔۔۔ ٹی وی سکرین پر ایک بوڑھے باپ کا غمزدہ چہرہ دیکھ کر چند لمحوں کو دل مسوس لیں اور دعا کریں کہ خداوندِ کریم ہمارے ملک کا نظام غیب سے ٹھیک کر دے۔
کہانی کا خلاصہ کچھ یوں ہے ۔۔۔ دلہن بنی ایک لڑکی، دلہن کو چھیڑتا وڈیرے کا نوکر، نوکر کی بدتمیزی پر اپنی بہن کی حفاظت کرتا شاہ زیب، شاہ زیب کی ’بدتمیزی‘ پر اسے موت کے گھاٹ اتارتا وڈیرے کا بیٹا، ٹی وی پر اپنے جوان اور اکلوتے بیٹے کی موت پر انصاف مانگتا سابق ڈی ایس پی پولیس اورنگزیب خان۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں روزانہ ایسی کتنی ہی کہانیاں جنم لیتی ہیں اور اپنی موت آپ ہی مرجاتی ہیں ۔۔۔ نیا کیا ہے اس کہانی میں؟ بس ایک عام سی قتل کی واردات ہی تو ہے؟ جسے سمجھنے کے لیے نہ تو شرلک ہومز جیسی ہوشیاری درکار ہے نہ ہی جگسا پزل کے ٹکڑے جوڑ کر سرا تلاش کرنے کی۔
تو پھر گرین اچ یونیورسٹی میں میڈیا سائنسز پڑھنے والے بیس سالہ شاہ زیب کے جسم میں اترنے والی گولیوں کا ماتم کیوں؟ کیا شہر ِکراچی نے کبھی اس سے پہلے جوان لاشوں کو کندھا نہیں دیا؟
آئی جی سندھ فیاض لغاری بتاتے ہیں کہ 2012ء میں کراچی میں 1702 افراد کو قتل کیا گیا۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے مطابق یہ تعداد دو ہزار کے لگ بھگ ہے۔ الجزیرہ ٹی وی کی ویب سائیٹ دنیا کے سب سے بڑے 13 شہروں میں سے کراچی کو خطرناک ترین قرار دیتی ہے۔ دنیا ٹی وی کے مطابق گزشتہ برس کراچی میں 553 بوری بند لاشیں برآمد ہوئیں۔ بھتہ وصولی اور بھتہ مافیا کے اعداد دستیاب نہیں۔ فیکٹریوں میں 'اچانک' بھڑک اٹھنے والی بھیانک آگ کے واقعات تو اب جیسے معمول کی بات ہیں۔
اور بس انہی معمولی واقعات میں سے ایک واقعہ ہے اس بدنصیب لڑکے کا جو اپنی بہن کے ولیمے سے واپس آیا اور ’ٹارگٹ کلنگ‘ کا نشانہ بن گیا۔ لیکن اس واقعے کے معمولی ہونے کے باوجود اہلِ پاکستان کی ’تشفی‘ کے بہت سے پہلو ہیں۔
چیف جسٹس صاحب نے اس قتل کا از خود نوٹس لے لیا ہے۔
سنا ہے خاصی پس و پیش اور معروف سیاستدان نبیل گبول کے اثر و رسوخ استعمال کرنے کے بعد درخشاں پولیس سٹیشن، کراچی میں بالآخر قتل کی ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔ مبارک۔
ملک بھر اور بالخصوص کراچی کی سرکردہ سیاسی جماعتوں نے شاہ زیب کے قتل کی مذمت کی ہے۔ جبکہ سول سوسائٹی نے کراچی پریس کلب کے باہر ملزمان کے خلاف پلے کارڈز اٹھا کر اور موم بتیاں جلا کر اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ مبارک۔
شاہ زیب کے قتل کی مذمت پر فیس بک پر ایک ’پیج‘ بھی بنایا جا چکا ہے، جسے اب تک چھیاسی ہزار سے زائد لوگ ’لائیک‘ بھی کر چکے ہیں اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مبارک۔
اور سب سے بڑھ کر قتل کے اہم ترین ملزم شاہ رخ جتوئی کے والد نے ٹی وی پر آکر ایک بیان میں یہ نوید سنائی ہے کہ شاہ رخ اس واقعے کی رات ہی اپنی پڑھائی مکمل کرنے کی غرض سے بیرونِ ملک جا چکا ہے۔ بہت ہی مبارک !!!
نہ جانے کیوں پچھلے ایک ہفتے سے شاہ زیب کے قتل کا سن کر دل پہ جیسے ایک بوجھ سا دھرا ہے جو سرکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ کبھی سوچتی ہوں کہ بھلا ایک جوشیلے بیس سالہ لڑکے کے وہم و گمان میں بھی ہوگا کہ اپنی دلہن بنی بہن کو مبینہ طور پر ایک وڈیرے کے بدمست اور بدتمیز نوکر سے بچانے کا تاوان اسے اپنی موت کی صورت ادا کرنا پڑے گا ۔۔۔ اور وہ خود بھی شہر ِ کراچی میں روز جنم لینے والی ایسی سینکڑوں کہانیوں میں سے ایک کہانی کا کردار بن جائے گا؟
ایک ایسی کہانی جو چند دن میڈیا پر ہاہاکار مچانے کے بعد آہستہ آہستہ دیگر اہم خبروں میں دفن ہوتی چلی جائے گی۔ اور رہی بات معاشرے کی ۔۔۔ تو معاشرے کی یادداشت میں بھلا ایسی کہانیوں کو جگہ دینے کی گنجائش ہی کہاں ہوتی ہے؟
آئیے ہم بھی آنکھیں بند کرلیں، ہونٹوں پر قفل لگائیں اور دلوں پر مہر۔۔۔ اور تہیہ کر لیں کہ بے حسی کی وہ اجتماعی چادر جو ہم نے من حیث القوم اوڑھ رکھی ہے اس کا کوئی کونہ اٹھا کر تازہ ہوا کا ایسا کوئی جھونکا اندر نہ آنے دیں گے جو ہمارے ضمیر کو بیدار کر سکے۔
آئیے شتر مرغ کی طرح ریت میں دھنسا اپنا سر تھوڑا اور دھنسالیں ۔۔۔ شاہ زیب کے قتل پر معاشرے کی روایتی بے حسی، وڈیرہ سسٹم اور نا انصافی کے ناسور پر لعنت ملامت کریں ۔۔۔ ٹی وی سکرین پر ایک بوڑھے باپ کا غمزدہ چہرہ دیکھ کر چند لمحوں کو دل مسوس لیں اور دعا کریں کہ خداوندِ کریم ہمارے ملک کا نظام غیب سے ٹھیک کر دے۔