واشنگٹن —
شام کے صوبے درعا میں ہونے والے بم دھماکوں میں کم از کم 20 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔
لندن میں قائم شامی حزبِ اختلاف کی حامی تنظیم 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' کے عہدیداران کے مطابق ملک کےجنوبی صوبے درعا سے لے کر شمالی شہر حلب تک مختلف مقامات پر باغیوں اور سرکاری افواج کے مابین جھڑپیں ہورہی ہیں جب کہ کئی ایک مقامات پر بمباری کی بھی اطلاعات ہیں۔
تنظیم کے ترجمان مطاز سہیل نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا ہے کہ حلب شہر کے مغربی علاقے میں باغیوں اور سرکاری فوجیوں کے مابین شدید جھڑپیں جاری ہیں جب کہ شہر کے زہرہ نامی ضلعے سے پانچ لاشیں برآمد ہوئی ہیں جن کی تاحال شناخت نہیں ہوسکی۔
ادھر شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'صنعا' نے منگل کو جاری کی جانے والی اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ فوجی دستوں نے حلب شہر میں دہشت گردوں کے ایک گروہ کو ہلاک کرنے کے بعد گولہ بارود تیار کرنے والے ان کے کئی کارخانے تباہ کردیے ہیں۔
دریں اثنا روس نے نیٹو پر زور دیا ہے کہ وہ شام میں مداخلت کرنے یا وہاں سرکاری افواج اور باغی جنگجووں کے درمیان 'بفر زون' قائم کرنے کے ارادوں سے باز رہے۔
منگل کو ماسکو میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے روس کے نائب وزیرِ خارجہ جینیڈی گیٹلووف نے نیٹو کے رکن ممالک کو خبردار کیا کہ وہ شام میں فوجی مداخلت اور وہاں "انسانی راہداریوں یا بفر زونز کے قیام جیسے اقدامات کرنے" کے "بہانے" تلاش نہ کریں۔
واضح رہے کہ روس اور چین شام میں گزشتہ 18 ماہ سےجاری بحران کے آغاز سے ہی صدر بشار الاسد کی حکومت کی حمایت کر رہے ہیں اور دونوں ممالک اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں مغربی ممالک کی جانب سے شامی حکومت کی مذمت میں اب تک پیش کی جانے والی تین قراردادیں 'ویٹو' کرچکے ہیں۔
ادھر لبنان کے اخبار 'الدیار' نے اپنی منگل کی اشاعت میں دعویٰ کیا ہے کہ شامی صدر بشار الاسد نے ملک کے تاریخی شہر اور تجارتی مرکز حلب کا دورہ کیا ہے جہاں ان دنوں سرکاری افواج اور باغیوں کے درمیان شدید لڑائی ہورہی ہے۔
اخبار کےمطابق شامی صدر ہیلی کاپٹر کے ذریعے دارالحکومت دمشق سے حلب پہنچے جہاں انہوں نے باغیوں سے لڑنے والے فوجی دستوں کو مزید 30 ہزار فوجیوں کی کمک پہنچانے کا اعلان کیا۔
حلب میں باغیوں اور سرکاری افواج کے مابین کئی مقامات پر شدید جھڑپیں ہورہی ہیں۔ لڑائی کے باعث ہفتے کو بھڑک اٹھنے والی آگ نے شہر کے تاریخی بازار 'سوق المدینہ' کے وسیع حصے کا خاکستر کردیا تھا جب کہ پیر کو بھی شہر کے کئی قدیم علاقوں میں لڑائی کے باعث آگ بھڑکتی رہی۔
ہفتے کو لگنے والی آگ نے 'سوق المدینہ' میں واقع کپڑے، عطریات اور مصالحہ جات کی سیکڑوں دکانوں کو خاکستر کردیا ہے۔ شہر میں موجود سیاحوں اور مقامی تاجروں کا کہنا ہے کہ آگ باغیوں اور سرکاری فوجیوں کے مابین بازار میں ہونے والی شدید لڑائی کے نتیجے میں لگی۔
واضح رہے کہ حلب شام کا قدیم تجارتی مرکز رہا ہے اور قرونِ وسطیٰ میں یہ شہر شاہراہِ ریشم کے راستے ایشیا سے یورپ جانے والے تاجروں کا یورپ میں داخلے سے قبل آخری مستقر ہوا کر تا تھا۔
لندن میں قائم شامی حزبِ اختلاف کی حامی تنظیم 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' کے عہدیداران کے مطابق ملک کےجنوبی صوبے درعا سے لے کر شمالی شہر حلب تک مختلف مقامات پر باغیوں اور سرکاری افواج کے مابین جھڑپیں ہورہی ہیں جب کہ کئی ایک مقامات پر بمباری کی بھی اطلاعات ہیں۔
تنظیم کے ترجمان مطاز سہیل نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا ہے کہ حلب شہر کے مغربی علاقے میں باغیوں اور سرکاری فوجیوں کے مابین شدید جھڑپیں جاری ہیں جب کہ شہر کے زہرہ نامی ضلعے سے پانچ لاشیں برآمد ہوئی ہیں جن کی تاحال شناخت نہیں ہوسکی۔
ادھر شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'صنعا' نے منگل کو جاری کی جانے والی اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ فوجی دستوں نے حلب شہر میں دہشت گردوں کے ایک گروہ کو ہلاک کرنے کے بعد گولہ بارود تیار کرنے والے ان کے کئی کارخانے تباہ کردیے ہیں۔
دریں اثنا روس نے نیٹو پر زور دیا ہے کہ وہ شام میں مداخلت کرنے یا وہاں سرکاری افواج اور باغی جنگجووں کے درمیان 'بفر زون' قائم کرنے کے ارادوں سے باز رہے۔
منگل کو ماسکو میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے روس کے نائب وزیرِ خارجہ جینیڈی گیٹلووف نے نیٹو کے رکن ممالک کو خبردار کیا کہ وہ شام میں فوجی مداخلت اور وہاں "انسانی راہداریوں یا بفر زونز کے قیام جیسے اقدامات کرنے" کے "بہانے" تلاش نہ کریں۔
واضح رہے کہ روس اور چین شام میں گزشتہ 18 ماہ سےجاری بحران کے آغاز سے ہی صدر بشار الاسد کی حکومت کی حمایت کر رہے ہیں اور دونوں ممالک اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں مغربی ممالک کی جانب سے شامی حکومت کی مذمت میں اب تک پیش کی جانے والی تین قراردادیں 'ویٹو' کرچکے ہیں۔
ادھر لبنان کے اخبار 'الدیار' نے اپنی منگل کی اشاعت میں دعویٰ کیا ہے کہ شامی صدر بشار الاسد نے ملک کے تاریخی شہر اور تجارتی مرکز حلب کا دورہ کیا ہے جہاں ان دنوں سرکاری افواج اور باغیوں کے درمیان شدید لڑائی ہورہی ہے۔
اخبار کےمطابق شامی صدر ہیلی کاپٹر کے ذریعے دارالحکومت دمشق سے حلب پہنچے جہاں انہوں نے باغیوں سے لڑنے والے فوجی دستوں کو مزید 30 ہزار فوجیوں کی کمک پہنچانے کا اعلان کیا۔
حلب میں باغیوں اور سرکاری افواج کے مابین کئی مقامات پر شدید جھڑپیں ہورہی ہیں۔ لڑائی کے باعث ہفتے کو بھڑک اٹھنے والی آگ نے شہر کے تاریخی بازار 'سوق المدینہ' کے وسیع حصے کا خاکستر کردیا تھا جب کہ پیر کو بھی شہر کے کئی قدیم علاقوں میں لڑائی کے باعث آگ بھڑکتی رہی۔
ہفتے کو لگنے والی آگ نے 'سوق المدینہ' میں واقع کپڑے، عطریات اور مصالحہ جات کی سیکڑوں دکانوں کو خاکستر کردیا ہے۔ شہر میں موجود سیاحوں اور مقامی تاجروں کا کہنا ہے کہ آگ باغیوں اور سرکاری فوجیوں کے مابین بازار میں ہونے والی شدید لڑائی کے نتیجے میں لگی۔
واضح رہے کہ حلب شام کا قدیم تجارتی مرکز رہا ہے اور قرونِ وسطیٰ میں یہ شہر شاہراہِ ریشم کے راستے ایشیا سے یورپ جانے والے تاجروں کا یورپ میں داخلے سے قبل آخری مستقر ہوا کر تا تھا۔