واشنگٹن —
اقوامِ متحدہ کے معائنہ کاروں پر مشتمل ایک پینل نے شام میں انسانی حقوق کی صورتِ حال کو انتہائی خراب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
مذکورہ پینل کے برازیل سے تعلق رکھنے والے سربراہ پائولو پنہیرو نے پیر کو جنیوا میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس کو بتایا کہ شام میں بنیادی انسانی حقوق کی "سفاک خلاف ورزیاں" اتنی زیادہ ہوگئی ہیں کہ ان کی ٹیم کے لیے ایسے تمام واقعات کی تحقیقات کرنا ممکن نہیں رہا۔
پینل کے سربراہ کا کہنا تھا کہ شام میں مسلم شدت پسندوں کی بڑی تعداد موجود ہے اور ان کی موجودگی کے باعث شامی صدر بشار الاسد کے خلاف لڑنے والے باغی جنگجو انتہا پسندی کی جانب مائل ہوسکتے ہیں۔
عالمی ادارے کی انسانی حقوق کونسل میں شام کے سفیر فیصل خباز نے پینل کی اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ شامی سفیر نے الزام عائد کیا کہ عالمی برادری کے بعض ارکان شام میں جاری بحران کو مزید سنگین بنانے کےلیے کام کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ شامی صدر بشار الاسد کے خلاف گزشتہ سال مارچ سے جاری احتجاجی تحریک اب ایک مکمل مسلح تصادم کی صورت اختیار کرگئی ہے جس کے دوران میں سرکاری فورسز اور باغیوں کے مابین جھڑپیں روز کا معمول ہیں۔
عالمی ادارے کے پینل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ شام میں جاری لڑائی ایک باقاعدہ مسلح تنازع کی صورت اختیار کرگئی ہے اور یہ یقین کرنے کے لیے کافی شواہد دستیاب ہیں کہ تصادم کے تمام فریقین، بشمول سرکاری افواج، صدر اسد کے حامی مسلح گروپ اور حکومت مخالف باغی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم میں ملوث ہیں۔
مذکورہ پینل کے برازیل سے تعلق رکھنے والے سربراہ پائولو پنہیرو نے پیر کو جنیوا میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس کو بتایا کہ شام میں بنیادی انسانی حقوق کی "سفاک خلاف ورزیاں" اتنی زیادہ ہوگئی ہیں کہ ان کی ٹیم کے لیے ایسے تمام واقعات کی تحقیقات کرنا ممکن نہیں رہا۔
پینل کے سربراہ کا کہنا تھا کہ شام میں مسلم شدت پسندوں کی بڑی تعداد موجود ہے اور ان کی موجودگی کے باعث شامی صدر بشار الاسد کے خلاف لڑنے والے باغی جنگجو انتہا پسندی کی جانب مائل ہوسکتے ہیں۔
عالمی ادارے کی انسانی حقوق کونسل میں شام کے سفیر فیصل خباز نے پینل کی اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ شامی سفیر نے الزام عائد کیا کہ عالمی برادری کے بعض ارکان شام میں جاری بحران کو مزید سنگین بنانے کےلیے کام کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ شامی صدر بشار الاسد کے خلاف گزشتہ سال مارچ سے جاری احتجاجی تحریک اب ایک مکمل مسلح تصادم کی صورت اختیار کرگئی ہے جس کے دوران میں سرکاری فورسز اور باغیوں کے مابین جھڑپیں روز کا معمول ہیں۔
عالمی ادارے کے پینل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ شام میں جاری لڑائی ایک باقاعدہ مسلح تنازع کی صورت اختیار کرگئی ہے اور یہ یقین کرنے کے لیے کافی شواہد دستیاب ہیں کہ تصادم کے تمام فریقین، بشمول سرکاری افواج، صدر اسد کے حامی مسلح گروپ اور حکومت مخالف باغی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم میں ملوث ہیں۔