سامعین 29 اگست کو پروگرام ’میری کہانی‘ میں ہم نے اس سلسلے کا سب سے مقبول پروگرام ، دوبارہ نشر کیا ۔۔۔یعنی وہ پروگرام جس میں کشمیر کی لائین آف کنٹرول کے آرپار رہنے والے دو خاندانوں کی تقریباً چھے عشرو ں بعد پہلی بار سرپرائز ملاقات کروائی گئی تھی۔
یہ پروگرام 15 مارچ 2012 ءکو پہلی بار پیش کیا گیا تھا۔ اور اس کی وجہ ایک کہانی تھی۔
کہتے ہیں نا کہ حقیقت افسانے سے زیادہ دلچسپ ہوتی ہے۔ ایسی ہی ایک کہانی ہمیں ’پبی‘ (خیبر پختون خواہ ) کے ایک گاؤں سے امتیاز احمد میر نے بھیجی تھی، جن کے دادا عبد الرحمٰن میر 1947 ءمیں، تن تنہا، کپواڑہ، کشمیر سے پاکستان آگئے تھے اور خیبر پختون خواہ میں آباد ہو گئے۔ لیکن، اُن کا دل ہمیشہ اپنے خاندان سے ملنے کے لئے تڑپتا رہا۔ ایک بار سرحد پار کر نے کی کوشش کرتے ہوئے وہ پکڑے بھی گئے۔ لیکن، مرتے دم تک بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں رہنے والے اپنے خاندان سے ملنے کی آس ان کے دل سے کم نہیں ہوئی۔
جب امتیاز نے رشتوں کی یہ خوبصورت کہانی مجھے بھیجی تو میں نے سری نگر میں وائس آف امریکہ کے نمائندے یوسف جمیل سے رابط کیا، جنہوں نے اپنے صحافی دوست طاہر سعید کی مدد سے ناممکن کو ممکن کر دکھایا، اور امتیاز کے دو فرسٹ کزنز عبدالخالق وانی اور عبدالرشید وانی کو ڈھونڈ نکالا۔ اور اپنے لاکھوں لسنرز کے ساتھ ھم بھی ان آنسوؤں اور مسکراہٹوں کے شاہد بنے جو عشروں کے بعد ہونے والی اس ملاقات کا فوری ردعمل تھے ۔۔۔۔ اور جس کے لئے میں یوسف جمیل صاحب کو اگر ہم شرلاک ہومز کا خطاب دوں تو بے جا نہ ہوگا، کیونکہ اپنے’ڈاکٹر واٹسن‘ کی مدد سے انہوں نے عشروں پرانے المیے کو دنوں میں ایک طربیہ میں تبدیل کر دیا ۔۔
آپ ملئے اردو سروس کے رپورٹر یوسف جمیل سے، تو ’میری کہانی‘ کا یہ یادگار شو سننے کے ساتھ اُن ہی تصویروں میں آپ کو مرحوم قیصر مرزا بھی نظر آئیں گے جن کی کمی ہم آج تک محسوس کرتے ہیں، جو ایک جرآت مند صحافی ہی نہیں ایک بہترین انسان بھی تھے ۔۔۔۔ اور دولھا میاں کوئی اور نہیں بلکہ یوسف جمیل ہیں، خود ان کے الفاظ میں ’جب آتش جوان تھا ‘ ۔۔۔۔
امتیاز میر اور دوسرے کہانی کاروں کی کہانیاں سننے کے لئے نیچے دئیے ہوئے لنک پر کلک کیجئیے۔۔۔۔۔۔۔
https://soundcloud.com/voa-urdu/awaz-e-dost-meri-kahani-56#new-timed-comment-at-2321008
یہ پروگرام 15 مارچ 2012 ءکو پہلی بار پیش کیا گیا تھا۔ اور اس کی وجہ ایک کہانی تھی۔
کہتے ہیں نا کہ حقیقت افسانے سے زیادہ دلچسپ ہوتی ہے۔ ایسی ہی ایک کہانی ہمیں ’پبی‘ (خیبر پختون خواہ ) کے ایک گاؤں سے امتیاز احمد میر نے بھیجی تھی، جن کے دادا عبد الرحمٰن میر 1947 ءمیں، تن تنہا، کپواڑہ، کشمیر سے پاکستان آگئے تھے اور خیبر پختون خواہ میں آباد ہو گئے۔ لیکن، اُن کا دل ہمیشہ اپنے خاندان سے ملنے کے لئے تڑپتا رہا۔ ایک بار سرحد پار کر نے کی کوشش کرتے ہوئے وہ پکڑے بھی گئے۔ لیکن، مرتے دم تک بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں رہنے والے اپنے خاندان سے ملنے کی آس ان کے دل سے کم نہیں ہوئی۔
جب امتیاز نے رشتوں کی یہ خوبصورت کہانی مجھے بھیجی تو میں نے سری نگر میں وائس آف امریکہ کے نمائندے یوسف جمیل سے رابط کیا، جنہوں نے اپنے صحافی دوست طاہر سعید کی مدد سے ناممکن کو ممکن کر دکھایا، اور امتیاز کے دو فرسٹ کزنز عبدالخالق وانی اور عبدالرشید وانی کو ڈھونڈ نکالا۔ اور اپنے لاکھوں لسنرز کے ساتھ ھم بھی ان آنسوؤں اور مسکراہٹوں کے شاہد بنے جو عشروں کے بعد ہونے والی اس ملاقات کا فوری ردعمل تھے ۔۔۔۔ اور جس کے لئے میں یوسف جمیل صاحب کو اگر ہم شرلاک ہومز کا خطاب دوں تو بے جا نہ ہوگا، کیونکہ اپنے’ڈاکٹر واٹسن‘ کی مدد سے انہوں نے عشروں پرانے المیے کو دنوں میں ایک طربیہ میں تبدیل کر دیا ۔۔
آپ ملئے اردو سروس کے رپورٹر یوسف جمیل سے، تو ’میری کہانی‘ کا یہ یادگار شو سننے کے ساتھ اُن ہی تصویروں میں آپ کو مرحوم قیصر مرزا بھی نظر آئیں گے جن کی کمی ہم آج تک محسوس کرتے ہیں، جو ایک جرآت مند صحافی ہی نہیں ایک بہترین انسان بھی تھے ۔۔۔۔ اور دولھا میاں کوئی اور نہیں بلکہ یوسف جمیل ہیں، خود ان کے الفاظ میں ’جب آتش جوان تھا ‘ ۔۔۔۔
امتیاز میر اور دوسرے کہانی کاروں کی کہانیاں سننے کے لئے نیچے دئیے ہوئے لنک پر کلک کیجئیے۔۔۔۔۔۔۔
https://soundcloud.com/voa-urdu/awaz-e-dost-meri-kahani-56#new-timed-comment-at-2321008