اس دور کے نوجوانوں کو اگر ٹیکسٹنگ آبادی کہا جائے تو غلط نا ہو گا، جن کا پسندیدہ مشغلہ موبائل فون پرانگوٹھوں کی مدد سے دوستوں کو مختصر پیغامات یا ٹیکسٹ میسج لکھنا ہے۔
فلسفہ سائنس کے ایک نئے مطالعے میں ماہر نفسیات نے انکشاف کیا کہ موبائل فون یا انٹرنیٹ پر بھیجے یا وصول کیےجانے والے مختصر پیغامات کے لیے لڑکیوں میں جنونی رویہ پایا جاتا ہے جو ان کی تعلیمی کارکردگی کو متاثر کرتا ہے لیکن ٹیکسٹ پیغامات کا لڑکوں کے تعلیمی نتائج پر منفی اثر نہیں تھا۔
سائنسی جریدہ 'امریکن سائیکلوجیکل ایسوسی ایشن' کے مطالعہ سے ظاہر ہوا کہ اوسط نوجوان ایک دن میں اندازاً 167 پیغامات بھیجتے اور وصول کرتے ہیں اور یہ نوجوانوں کے لیے پیغامات بھیجنے کا ترجیحی طریقہ ہے۔
مطالعہ کے سربراہ محقق کیلی لینڈ مین نے کہا کہ نتائج سے پتا چلتا ہے کہ مختصر پیغامات کی تعداد کے مقابلے میں ٹیکسٹ پیغامات کے لیے جنونی رویہ زیادہ بڑی پریشانی ہے۔
ڈیلاوئیر کمیونٹی کالج سے منسلک پروفیسر کیلی لینڈ مین کے مطابق ٹیکسٹ پیغامات کی طرف جذباتی رویہ ٹیکسٹنگ کی تعداد کے مقابلے میں زیادہ پیچیدہ ہوتا ہے، اس میں ایسا ہوتا ہے کہ پیغامات میں کمی کرنے کی کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں، ٹیکسٹنگ کے رویہ کے بارے میں دوسروں کے سوال پر دفاعی رویہ اختیار کر لیا جاتا ہے اور اگر کسی وجہ سے ٹیکسٹ بھیجنا ممکن نہیں ہو تو شدید غصہ آتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اگرچہ لڑکیوں اور لڑکوں میں ٹیکسٹ پیغامات کی شرح ایک جیسی تھی تاہم ان کے متن کی وجوہات مختلف تھیں۔
مطالعہ کے مطابق لڑکوں نے معلومات کے اشتراک کے لیے مختصر پیغامات کا استعمال کیا تھا جبکہ لڑکیوں نے سماجی تعلقات نبھانے اور دوستوں کے ساتھ راہ و رسم بڑھانے کے لیے ٹیکسٹ پیغامات کا استعمال کیا، جس سے محققین نے نتیجہ نکالا کہ لڑکیوں میں ٹیکسٹ پیغامات کے حوالے سے جنونی رویے کا امکان تھا جو انھیں بار بار فون چیک کرنے کی طرف مجبور کرتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ لڑکیاں عمر کے اس دور میں سیاق و سباق سے ہٹ کر سوچتی ہیں اور دوسروں کے ساتھ زیادہ جذباتی طور پر منسلک ہو جاتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ لڑکیوں کے بھیجے گئے اور موصولہ پیغامات کی نوعیت زیادہ پریشان کن تھی۔
تحقیق کاروں کے مطابق 60 فیصد نوجوان ہر روز دوستوں یا عزیز و اقارب کو ٹیکسٹ پیغامات بھیجتے ہیں جبکہ ہر پانچ میں سے دو یا 40 فیصد نوجوان اپنے موبائل فون کو وائس کال کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ایک مشاہدے کے لیے تحقیق کاروں کی ٹیم نے آٹھویں جماعت سے گیارہویں جماعت کی211 لڑکیوں اور 192 لڑکوں کو شامل کیا اور 'کمپلسیو ٹیکسٹنگ اسکیل' کی مدد سے شرکاء میں ٹیکسٹ پیغامات کے رویے کی چھان بین کی۔
محققین نے کہا کہ جن لڑکیوں نے اسکیل پر زیادہ نمبر لیے تھے۔ ان کی تعلیمی کارکردگی خراب تھی ان کے گریڈ اچھے نہیں تھے وہ اسکول میں اچھی طرح سے ایڈجسٹ نہیں تھیں۔ لیکن یہ بات لڑکوں کے لیے درست ثابت نہیں ہوئی۔
اس سے قبل ایک حالیہ برطانوی مطالعے سے ظاہر ہوا تھا کہ ٹیکسٹ پیغامات کی غیر روایتی زبان ہجے اور گرامر کے استعمال سے نوجوانوں کی انگریزی زبان کی مہارت میں اضافہ ہوتا ہے اور انگریزی میں ان کی املا اور گرامر کے بہتر نتائج نظر آئے تھے۔
اسی طرح امریکی ماہرین کی ایک تحقیق سے پتا چلا تھا کہ اسکول کی پڑھائی کے دوران ٹیکسٹ پیغامات بھیجنے والے بچوں کے امتحانی نتائج اچھے نہیں ہوتے ہیں۔ تاہم نئی تحقیق کا نتیجہ بتاتا ہے کہ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں میں ٹیکسٹ پیغامات کے لیے جذباتی رویہ زیادہ مشکلات پیدا کرتا ہے۔