واشنگٹن —
مصر میں معزول صدر محمد مرسی کے ہزاروں حامیوں نے جمعے کو دارالحکومت قاہرہ سمیت ملک کے مختلف حصوں میں مظاہرے کیے ہیں جن کے شرکا اور پولیس کے درمیان کئی مقامات پر جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق دو ہفتے قبل معزول صدر کے حامیوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن اور اس میں سیکڑوں مظاہرین کی ہلاکت کے بعد یہ اب تک کا سب سے بڑا احتجاج تھا۔
حکام کے مطابق بیشتر مقامات پر نکلنے والے جلوس پر امن رہے تاہم قاہرہ کے ضلع مہندسین میں پولیس کی جانب سے مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ اور فائرنگ سے چھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
مصر کی عبوری حکومت نے جمعے کو علی الصباح ہی سکیورٹی فورسز کے دستوں کو ملک کی تمام اہم شاہراہوں اور چوراہوں پر تعینات کردیا تھا اور خبردار کیا تھا کہ مظاہرین کی جانب سے اشتعال دلانے پر سکیورٹی اہلکار فائرنگ کرنے کے مجاز ہیں۔
فوج کی حمایت یافتہ عبوری انتظامیہ معزول صدر محمد مرسی کی اسلام پسند جماعت 'اخوان المسلمون' کی تقریباً تمام مرکزی قیادت اور ہزاروں سرگرم کارکنوں کو حراست میں لے چکی ہے۔
'رائٹرز' کے مطابق گزشتہ مظاہروں کو سختی سے کچلے جانے اور قیادت اور کارکنوں کی اتنے بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کے بعد قیاس کیا جارہا تھا کہ معزول صدر کی بحالی کے لیے چلنے والی تحریک کا زور ٹوٹ جائے گا لیکن جمعے کے مظاہروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ 'اخوان' کی قوت اب بھی برقرار ہے۔
سکیورٹی حکام کے مطابق مصر کے مختلف شہروں میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جمعے کو ہونے والی جھڑپوں میں 50 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جب کہ درجنوں مزید افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔
مظاہروں کے اختتام کے بعد عبوری کابینہ نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کرفیو کی خلاف ورزی کرنے والوں کو قانونی کاروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق جمعے کو ہونے والے مظاہروں سے ظاہر ہو تا ہے کہ معزول صدر کی حامی جماعتوں نے اپنے احتجاج کی حکمتِ عملی تبدیل کرلی ہے۔
جمعے کو نکلنے والے جلوسوں کے شرکا نے قاہرہ اور دیگر شہروں کے ان مرکزی مقامات اور چوراہوں کا رخ کرنے سے گریز کیا جہاں گزشتہ دنوں سکیورٹی اداروں نے ان کے ساتھیوں کے خلاف ہلاکت خیز کریک ڈاؤن کیا تھا۔
حکام کے مطابق اخوان کی نئی حکمتِ عملی کے تحت جمعے کو قاہرہ کی سیکڑوں مساجد سے چھوٹے چھوٹے جلوس برآمد ہوئے جو بعد ازاں دارالحکومت کے مختلف علاقوں سے گزرتے ہوئے ایک دوسرے میں شامل ہوگئے۔
مظاہرین محمد مرسی کی منتخب حکومت کی بحالی کے حق میں اور انہیں برطرف کرنے والے فوج کے سربراہ جنرل السیسی کے خلاف نعرے بازے کر رہے تھے۔
'رائٹرز' کے مطابق مصر کے دوسرے بڑے شہر اسکندریہ سمیت طنتہ، سوئز، اسماعیلیہ، پورٹ سعید اور اسیوط کے شہروں میں بھی کئی مساجد سے اسی نوعیت کے چھوٹے چھوٹے جلوس برآمد ہوئے جو بعد میں بڑے جلوسوں میں مدغم ہوگئے۔
'اخوان المسلمون' کے لندن میں قائم مرکزِ اطلاعات کے مطابق معزول صدر مرسی کے حامیوں کی جانب سے جمعے کی نماز کے بعد قاہرہ کے 15 اضلاع سمیت ملک کے 32 شہروں میں مظاہرے کیےگئے۔
مصر کے سیاسی تجزیہ کار مصطفیٰ السید نے 'رائٹرز' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ جمعے کو اتنے بڑے پیمانے پر مظاہروں اور ان میں ہزاروں افراد کی شرکت سے 'اخوان' کی خود کو منظم رکھنے کی صلاحیت اور ان کے تنظیمی ڈھانچے کے مؤثر ہونے کا اظہار ہوتا ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق دو ہفتے قبل معزول صدر کے حامیوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن اور اس میں سیکڑوں مظاہرین کی ہلاکت کے بعد یہ اب تک کا سب سے بڑا احتجاج تھا۔
حکام کے مطابق بیشتر مقامات پر نکلنے والے جلوس پر امن رہے تاہم قاہرہ کے ضلع مہندسین میں پولیس کی جانب سے مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ اور فائرنگ سے چھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
مصر کی عبوری حکومت نے جمعے کو علی الصباح ہی سکیورٹی فورسز کے دستوں کو ملک کی تمام اہم شاہراہوں اور چوراہوں پر تعینات کردیا تھا اور خبردار کیا تھا کہ مظاہرین کی جانب سے اشتعال دلانے پر سکیورٹی اہلکار فائرنگ کرنے کے مجاز ہیں۔
فوج کی حمایت یافتہ عبوری انتظامیہ معزول صدر محمد مرسی کی اسلام پسند جماعت 'اخوان المسلمون' کی تقریباً تمام مرکزی قیادت اور ہزاروں سرگرم کارکنوں کو حراست میں لے چکی ہے۔
'رائٹرز' کے مطابق گزشتہ مظاہروں کو سختی سے کچلے جانے اور قیادت اور کارکنوں کی اتنے بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کے بعد قیاس کیا جارہا تھا کہ معزول صدر کی بحالی کے لیے چلنے والی تحریک کا زور ٹوٹ جائے گا لیکن جمعے کے مظاہروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ 'اخوان' کی قوت اب بھی برقرار ہے۔
سکیورٹی حکام کے مطابق مصر کے مختلف شہروں میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جمعے کو ہونے والی جھڑپوں میں 50 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جب کہ درجنوں مزید افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔
مظاہروں کے اختتام کے بعد عبوری کابینہ نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کرفیو کی خلاف ورزی کرنے والوں کو قانونی کاروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق جمعے کو ہونے والے مظاہروں سے ظاہر ہو تا ہے کہ معزول صدر کی حامی جماعتوں نے اپنے احتجاج کی حکمتِ عملی تبدیل کرلی ہے۔
جمعے کو نکلنے والے جلوسوں کے شرکا نے قاہرہ اور دیگر شہروں کے ان مرکزی مقامات اور چوراہوں کا رخ کرنے سے گریز کیا جہاں گزشتہ دنوں سکیورٹی اداروں نے ان کے ساتھیوں کے خلاف ہلاکت خیز کریک ڈاؤن کیا تھا۔
حکام کے مطابق اخوان کی نئی حکمتِ عملی کے تحت جمعے کو قاہرہ کی سیکڑوں مساجد سے چھوٹے چھوٹے جلوس برآمد ہوئے جو بعد ازاں دارالحکومت کے مختلف علاقوں سے گزرتے ہوئے ایک دوسرے میں شامل ہوگئے۔
مظاہرین محمد مرسی کی منتخب حکومت کی بحالی کے حق میں اور انہیں برطرف کرنے والے فوج کے سربراہ جنرل السیسی کے خلاف نعرے بازے کر رہے تھے۔
'رائٹرز' کے مطابق مصر کے دوسرے بڑے شہر اسکندریہ سمیت طنتہ، سوئز، اسماعیلیہ، پورٹ سعید اور اسیوط کے شہروں میں بھی کئی مساجد سے اسی نوعیت کے چھوٹے چھوٹے جلوس برآمد ہوئے جو بعد میں بڑے جلوسوں میں مدغم ہوگئے۔
'اخوان المسلمون' کے لندن میں قائم مرکزِ اطلاعات کے مطابق معزول صدر مرسی کے حامیوں کی جانب سے جمعے کی نماز کے بعد قاہرہ کے 15 اضلاع سمیت ملک کے 32 شہروں میں مظاہرے کیےگئے۔
مصر کے سیاسی تجزیہ کار مصطفیٰ السید نے 'رائٹرز' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ جمعے کو اتنے بڑے پیمانے پر مظاہروں اور ان میں ہزاروں افراد کی شرکت سے 'اخوان' کی خود کو منظم رکھنے کی صلاحیت اور ان کے تنظیمی ڈھانچے کے مؤثر ہونے کا اظہار ہوتا ہے۔