صحافیوں کی دو بین الاقوامی تنظیموں نے یوکرین کے صدر پیترو پوروشنکو کی جانب سے حکم نامہ جاری کرنے کی مذمت کی ہے، جس کے تحت ایک سال کے لیے 41 بین الاقوامی صحافیوں اور بلاگرز کے یوکرین میں داخلے پر بندش عائد کی گئی ہے۔
’یورپ کی تنظیم برائے سلامتی اور تعاون (او ایس سی اِی)‘ نے جمعرات کو ایک بیان جاری کیا ہے جس میں صحافیوں پر لاگو کی گئی اِس بندش کو ’ اطلاعات تک آزادانہ رسائی کو لاحق شدید خدشات‘ قرار دیا ہے۔
تنظیم کے میڈیا کی آزادی سے متعلق نمائندے، دنجا جیتووک نے کہا ہے کہ حکومتوں کو دہشت گردی سے لڑنے اور اپنی قومی سلامتی اور شہریوں کا تحفظ کرنے کا حق حاصل ہے۔ تاہم، ’ایسی وسیع تر قدغنیں عائد کرنا جن کے باعث صحافیوں کی نقل و حرکت پر حرف آئے، ایسے ہتھکنڈوں سے سلامتی کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا‘۔
اُنھوں نے صدر پوروشنکو پر زور دیا کہ وہ اپنے حکم نامے میں ترمیم کرتے ہوئے اُس میں صحافیوں کے تذکرے کی شق کو منہا کریں۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ یوکرین کے حکام کو صحافیوں کے کام میں آسانی پیدا کرنی چاہیئے اور ’اُن کی ملک میں داخلے کی راہ میں انتظامی رکاوٹیں پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیئے‘۔
’کمیٹی ٹو پراٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے)‘ نے بدھ کو جاری کیے گئے ایک بیان میں سرکاری حکم نامے کی مذمت کی ہے۔ سی پی جے کی یورپ اور وسطی ایشیا کے پروگرام کی رابطہ کار، نینا اوگنیا نووا نے کہا ہے کہ ’عین ممکن ہے کہ سرکار کسی صحافی کی بھیجی گئی خبروں کو پسند نہ کرے۔ لیکن، یہ کہنا کہ صحافی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہوسکتے ہیں، مناسب انداز نہیں کہا جا سکتا‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ اِس حکم نامے کی رو سے اہم خبروں اور اطلاعات کو روکنے کے عمل سے یوکرین کے مفادات کو نقصان پہنچے گا، جب کہ خبروں کی ترسیل سے دنیا کو ملک کے سیاسی بحران کے بارے میں آگہی ملتی ہیں۔
ماسکو میں برطانوی نشریاتی ادارے، ’بی بی سی‘ سے وابستہ تین صحافیوں پر بھی بندش لگائی گئی ہے۔ مسٹر پوروشنکو نے جمعرات کے روز ملک کی قومی سلامتی اور دفاعی کونسل کو ہدایت کی ہے کہ اِن کا نام فہرست سے واپس لیا جائے۔ بی بی سی کے یہ صحافی ہیں: نامہ نگار اسٹیو روزنبرگ، پروڈیوسر ایما ویلز اور کیمرامین اینٹن چشروف۔
یوکرین میں نئی تعینات نئی برطانوی سفیر، جوڈتھ گاگ کے ساتھ ملاقات کے دوران، مسٹر پوروشنکو نے کہا کہ، ’میں صحافت کی آزادی کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں‘۔