کئیف میں اہل کاروں کا کہنا ہے کہ یوکرین کے مشرقی حصے میں گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کم از کم 13 یوکرینی فوجی اور سات سولین ہلاک ہوئے، جس سے قبل امن مذاکرات ناکام ہوئے، جن کا مقصد بحران میں کمی لانا تھا۔
دیبالسیف کے مال برداری کے مرکز کے قرب و جوار میں علیحدگی پسندوں کی طرف سے کیے جانے والے حملے میں کم از کم 20 فوجی زخمی بھی ہوئے۔
ڈونیسک اور لہانسک کے علاقے کے مضافات میٕں، جہاں علیحدگی پسندوں نے خود ساختہ آزادی کا اعلان کررکھا ہے، لڑائی اور گولہ باری کے دوران سات شہری ہلاک ہوئے۔ باغیوں کی ہلاکتوں کے بارے میں فوری طور پر کوئی بات نہیں بتائی گئی۔
اس تازہ ترین جھڑپ سے ایک روز قبل یوکرین اور روس نواز علیحدگی پسندو ں کے درمیان امن مذاکرت ناکام ہوچکے تھے۔ تاہم، جوں جوں لڑائی میں تیزی آئی، اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی، جس کے نتیجے میں فوجی اور شہریوں کی ہلاکتیں واقع ہوئیں۔
ہفتے کو منسک میں ہونے والی بات چیت کو چند گھنٹوں کے لیے مؤخر کیا گیا۔
سہ رکنی ’کنٹیکٹ گروپ‘، جس میں روس، یوکرین اور یورپ میں سلامتی اور تعاون سے متعلق تنظیم (او ایس سی اِی) نے بتایا ہے کہ یوکرین کے باغیووں کے زیر تسلط علاقے سے تعلق رکھنے والے نمائندے مذاکرات میں شرکت کے لیے نہیں پہنچے، جن میں جنگ بندی پر عمل درآمد اور بھاری اسلحے کے انخلاٴ سے متعلق گفتگو ہونی تھی۔
برعکس اِس کے، گروپ نے کہا کہ باغی دوبارہ منسک جانے کے خواہشمند تھے، جس میں مخاصمت کے خاتمے کے لیے بنیاد فراہم کرنے کا کام کیا جانا تھا۔
فریقین کی طرف سے ستمبر میں جس جنگ بندی سے اتفاق کیا گیا اُس کی بارہا خلاف ورزی ہوئی اور گذشتہ ہفتے یہ مکمل طور پر ختم ہوگئی، جب باغیوں نے علاقے کو وسعت دینے کے لیے ایک نئی کارروائی کے آغاز کا اعلان کیا۔
یوکرین کا تنازع گذشتہ اپریل میں اُس وقت شروع ہوا جب روس نے جزیرہ نما کرائیما کو ضم کیا، اور اب تک اس میں 5100 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
حالیہ دِنوں میں لڑائی میں اضافے کے بعد، یوکرین کے صدر پیٹرو پوروشنکو نے امن بات چیت کا ایک نیا دور شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔