احمد ندیم قاسمی کی شخصیت ہشت پہل تھی۔ وہ ایک جانب جہاں ادیب ،افسانہ نگار ، ڈرامہ نگار ، صحافی ،کالم نگار تھے وہیں دوسری جانب صاحب طرز شاعر بھی تھے اور وہ خود کہتے تھے کہ ان کا پہلا عشق شاعری ہے لیکن انہیں نظم و نثر دونوں پر زبردست عبور حاصل تھا ۔
قاسمی صاحب 20نومبر سنہ 1916 کو پاکستانی پنجاب کے ضلع خوشا ب کی تحصیل انگا میں پیر غلام نبی کے یہاں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق خانقاہ سے تھا ۔ اسی لئے ان کے مزاج میں قلندری اورصوفیت تھی ۔ ان کی اولین تعلیم مدرسے میں اور پھر اعلیٰ تعلیم بھاگلپور میں ہوئی تھی ۔ انہوں نے پہلا شعر سنہ 1927 میں کہا تھا اور ان کی اولیں نظم سنہ 1931 میں سیاست لاہور میں شائع ہوئی تھی، جو انہوں نے مولانا محمد علی جوہر کی وفات پر کہی تھی ۔
احمد ندیم قاسمی نے 90 سال کی عمر پائی اور مسلسل قلم کی خدمت کرتے رہے ۔ انہوں نے 50سے بھی زائد کتابیں یاد گار چھوڑیں ۔ ان کے 17 افسانوی مجموعے اور 6شعری مجموعے شائع ہوئے ۔ تنقید و تحقیق کی تین کتابیں چھپیں اور ترتیب و ترجمہ کے تحت بھی ان کی چھ کتابیں منظر عام پر آئیں ۔ بچوں کے لئے بھی انہوں نے کافی کچھ لکھا اور ان کا انتخاب تین کتابوں کی شکل میں شائع ہوا ۔ ان کے افسانو ں کے ترجمے دنیا بھر کی ایک درجن سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو کر شائع ہوئے ۔
انہیں پاکستان کے اعلیٰ ترین اعزاز ”ستارہ امتیاز “ سے نوازا گیا تھا ۔ 10 جولائی سنہ 2006 کو لاہور میں ان کی وفات ہوئی ۔ ان کے ادب نے کئی نسلوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں اور ان کے ادبی رسالہ ” فنون “ نے کئی نسلوں کی پرورش کی تھی ۔
ایک جانب قاسمی کے ہم عصروں میں جہاں سعادت حسن منٹو ، راجیندر سنگھ بیدی ، کرشن چندر ، عصمت چغتائی اور غلام عباس جیسے افسانہ نگار تھے تو دوسری جانب شاعروں میں ان کے ہم عصر میرا جی ، ن م راشد ، فیض احمد فیض، حفیظ جالندھری ، جوش ملیح آبادی اور علی سردار جعفری جیسے شاعر اور قاسمی صاحب نے ان دیو قامت قلمکاروں کے درمیان بطور افسانہ نگار اور بحیثیت شاعر اپنی شناخت قائم کی ۔ یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں تھا ۔
قاسمی صاحب کے ہر پہلو پر لکھنے کے لئے پورا دفتر درکار ہے لیکن ان کا پہلا عشق شاعری تھا اس لئے ان کی چوتھی برسی پر یاد کرنے کے لئے ان کی شعری خصوصیات کا ذکر کرنا مناسب ہوگا ۔ ان کے متعدد اشعار زبان زد خاص و عام ہو گئے تھے اورا نہیں ضرب المثل کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی ۔
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاﺅں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاﺅں گا
تیرے پہلو سے جو اٹھوں گا تو مشکل یہ ہے
صرف اک شخص کو پاﺅں گا جدھر جاﺅں گا
دل گیا تھا تو یہ آنکھیں بھی کوئی لے جاتا
میں فقط ایک ہی تصویر کہاں تک دیکھوں
احمد ندیم قاسمی نے غزلیں بھی کہیں اور نظموں پر بھی طبع آزمائی کی ۔ ایک جانب جہاں ان کی غزلیں دامن دل کو کھینچتی ہیں وہیں دوسری جانب ان کی نظمیں بھی قاری کو دیر تک سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔ ان کی غزلوں کے اشعار نئی کیفیت کے حامل ہیں
میں استعمال سچ کا نسخہ اکسیر کرتا ہوں
میں بے توقیر انسانوں کی بھی توقیر کرتا ہوں
میں مٹی سے بنا ہوں لیکن اونچی ہے انا میری
میں ساتوں آسمانوں پر زمین تحریر کرتا ہوں
میرا اک ایک لمحہ اک صدی ہے اک زمانہ ہے
میں اپنی شاعری میں وقت کو زنجیر کرتا ہوں
یہ کتنی سادگی سے اپنی جاں گنوا بیٹھے
مکان گرنے سے پہلے چھتوں پہ جا بیٹھے
عجب تھے ہم بھی کہ سیلاب کے اترتے ہی
کنارے آب رواں بستیاں بسا بیٹھے
احمد ندیم قاسمی نے بہت سے ادوار دیکھے تھے زمانے کے ستم بھی سہے تھے اور بہت سے مراحل سے گزرے تھے اس لئے ان کے پاس تجربات کی کمی نہیں تھی ۔ انہوں نے جو کچھ بیان کیا اس میں آپ بیتی بھی ہے اور جگ بیتی بھی
اک ایسے دور میں پیدا ہوئی ہے پود اپنی
کہ اک پل میں زمانے گزرتے دیکھے ہیں
فضا کے دام میں الجھے ہوئے غریب انساں
نظام شمس پہ یلغار کرتے دیکھے ہیں
جو نصف شب کو سنی ہے صدائے پائے سحر
تو دوپہر کو ستارے ابھرتے دیکھے ہیں
احمد ندیم قاسمی کے انتقال کے بعد ان پر بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن ان کے ایک شاگرد اور بھارتیہ فلمی دنیا کے مشہور شاعر گلزار نے جو نظم کہی تھی اس کی بات کچھ اور ہے ۔یہ کیفیت صرف گلزار ہی بیان کر سکتے تھے ان کی اس نظم کا عنوان ”بابا “ ہے جو انہوں نے اپنے ادبی ”بابا “ کے انتقا ل پر خراج عقیدت پیش کرنے کےلئے لکھی تھی
حواس کا جہان ساتھ لے گیا
وہ سارے بادبان ساتھ لے گیا
بتائیں کیا ، وہ آفتاب تھا کوئی
گیا تو آسمان ساتھ لے گیا
کتاب بند کی اور اٹھ کے چل دیا
تمام داستان ساتھ لے گیا
میں سجدے سے اٹھا تو کوئی بھی نہ تھا
وہ پاﺅں کے نشان ساتھ لے گیا