امریکہ میں پیر کو کرونا وائرس کی ویکسین کی آزمائش شروع کردی گئی۔ یہ آزمائش مہلک وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ریاست واشنگٹن میں جارہی ہے۔ سیاٹل شہر میں کائزر پرمننٹ واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ میں ایک خاتون رضاکار کو پہلا انجکشن لگایا گیا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پہلا انجکشن لگوانے والی 43 سالہ جینیفر ہیلر دو بچوں کی ماں ہیں۔ وہ ایک چھوٹی ٹیکنالوجی کمپنی میں بطور آپریشنز منیجر کام کرتی ہیں۔ انھوں نے اس موقع پر کہا کہ مایوسی کے ان دنوں میں یہ میرے لیے کچھ کرنے کا شاندار موقع ہے۔
جینیفر کو جس ٹیسٹنگ روم میں ویکسین دی گئی، وہاں رضاکاروں کی لمبی قطار انتظار میں تھی۔ 45 رضاکاروں نے خود کو اس تحقیق کے لیے پیش کیا ہے اور انھیں ایک ماہ کے وقفے سے دو انجکشن لگائے جائیں گے۔ رضاکاروں کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس سے چھٹکارا ان کے لیے سب سے اہم بات ہے اور وہ اس کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔
اس تحقیق کی سربراہ ڈاکٹر لیزا جیکسن تجربے سے ایک روز پہلے بہت پرجوش نظر آئیں۔ انھوں نے کہا کہ اب ہم ٹیم کرونا وائرس بن گئے ہیں۔
اس ابتدائی دوا کو نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اور میساچوسیٹس کی بایوٹیک کمپنی ماڈرن انکارپوریٹڈ نے تیار کیا ہے۔ جو لوگ رضاکارانہ طور پر انجکشن لگوارہے ہیں، انھیں اس سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ اس میں کرونا وائرس شامل نہیں کیا گیا۔ اگرچہ یہ واحد ویکسین نہیں جس کی آزمائش کی جارہی ہے اور نہ ہی 12 سے 18 ماہ تک کوئی ویکسین بازار میں آسکتی ہے لیکن پھر بھی دنیا بھر میں کوششیں جاری ہیں۔ توقع ہے کہ آئندہ ماہ انوویو فارماسیوٹیکل امریکہ، چین اور جنوبی کوریا میں اپنی ویکسن کی آزمائش شروع کرے گی۔
کرونا وائرس سے اب تک دنیا بھر میں ایک لاکھ 75 ہزار سے زیادہ مریض سامنے آچکے ہیں ہے اور ان میں یومیہ پانچ ہزار کیسز کا اضافہ ہورہا ہے۔ لگ بھگ 80 ہزار افراد ٹھیک ہوچکے ہیں لیکن وہ کسی دوا سے نہیں بلکہ اپنے مدافعتی نظام کی وجہ سے صحت یاب ہوئے ہیں۔ ماہرین ویکسین کی تیاری میں اسی امر کو پیش نظر رکھتے ہیں کہ انسانی جسم میں لاعلاج وائرس کے خلاف مدافعتی نظام کو کیسے متحرک اور کامیاب کیا جائے۔