رسائی کے لنکس

صدر ٹرمپ اور جو بائیڈن کو وائٹ ہاؤس کے لیے سخت مقابلے کا سامنا


امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے دوبارہ انتخاب کیلئے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ منگل کے روز ہونے والے انتخاب میں صدر ٹرمپ اپنی پوری کوشش میں ہیں کہ وہ گزشتہ چار دہائیوں میں تیسرے ایسے امریکی صدر نہ بنیں، جو اپنی پہلی مدت کے بعد دوسری مدت کا انتخاب ہار گئے۔

ڈیموکریٹ جماعت کے جو بائیڈن، قومی سطح پر جو بائیڈن سے تقریباً آٹھ پوائنٹ آگے ہیں، لیکن اہم ترین ریاستوں میں جہاں کے نتائج فیصلہ کن ثابت ہو سکتے ہیں، وہاں بائیڈن کی سبقت اور بھی کم ہے۔

صدر ٹرمپ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ سن 2016 کے انتخابات کے آخر میں بھی ہلری کلنٹن سے رائے عامہ کے جائزوں میں پیچھے تھے لیکن پھر انہوں نے غیر متوقع طور پر روایتی طور پر ڈیموکریٹ کی حامی ریاستوں پینسلوانیا، مشی گن اور وسکانسن میں فتح حاصل کی اور صدر منتخب ہو گئے۔

صدر ٹرمپ ایسی ہی ریاستوں میں، جن میں فلوریڈا، پینسلوانیا اور مشین گن سرفہرست ہیں، بے تکان اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ صدر کبھی تین ریاستوں اور بعض اوقات اس سے زیادہ ریاستوں میں ایک ہی دن میں جلسے کر رہے ہیں۔

ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جو بائیڈن اور صدر ٹرمپ دونوں ہی انتخابی جلسوں میں ایک دوسرے پر نکتہ چینی کر رہے ہیں۔
ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جو بائیڈن اور صدر ٹرمپ دونوں ہی انتخابی جلسوں میں ایک دوسرے پر نکتہ چینی کر رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ کے مخالفین کا اپنی تنقید کا زیادہ زور کرونا وائرس سے متعلق ان کی پالیسیوں پر ہے۔ یہ وہ واحد سب سے بڑا معاملہ ہے جو ان کے خلاف جاتا ہے۔ تاہم وہ اس کا دفاع اپنی بہتر معاشی پالیسیوں سے کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ کرونا وئرس کی وبا پھیلنے سے پہلے، ملک میں گزشتہ پانچ عشروں کے دوران سب سے کم بے روزگاری کی شرح تھی جو کہ تین اشاریہ پانچ تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ وہ معیشت کو دوبارہ بحال کر دیں گے۔ امریکی محکمہ کامرس کے مطابق، گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ یعنی پیداوار کی شرح تیسری سہ ماہی میں سات اشاریہ چار فیصد بڑھی ہے، جو کہ تیز ترین سطح ہے۔

بائیڈن عالمی وبا کو روکنے کیلئے کی جانے والی کاوشوں کو انتشار کا شکار اور ڈانواڈول قرار دیتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ عالمی وبا کو کسی حد تک قابو میں لایا جا چکا ہے۔

سرکاری محققین اور نجی دوا ساز کمپنیوں کا کہنا ہے کہ وہ وائرس کے خلاف ویکسین تیار کرنے کے قریب ہیں، اور وہ آئندہ ہفتوں میں ممکنہ طور پر تیار ہو سکتی ہے۔ تاہم ابھی تک کسی ویکسین کی منظوری نہیں دی گئی اور نہ ہی الیکشن کے روز تک ہو گی، جس کے بارے میں صدر ٹڑمپ کا کہنا تھا کہ یہ ممکن ہے۔

صدر ٹرمپ نے واشنگٹن میں مروجہ رواج کے برعکس سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو اپنے فیصلوں سے مطلع کا طریقہ اختیار کیا۔

امریکی انتخابات: 'نوجوان ووٹرز سب سے زیادہ اہم ہیں'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:17 0:00

ناقدین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے امریکہ کے روایتی یورپی اور ایشیائی اتحادیوں سے تعلقات میں کمی کی۔

بہت سی بڑی ریپبلکن شخصیات صدر ٹرمپ کو کرونا وائرس سے نمٹنے کیلئے فیصلہ کن قرار دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے چین کے شہر وُہان میں وائرس پھیلنے کے ابتدائی دنوں میں ہی چین کے مسافروں کے امریکہ داخلے پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

جو بائیڈن

صدر ٹرمپ کے مقابل انتخاب لڑنے والے سابق امریکی نائب صدر جو بائیڈن اگر کامیاب ہو گئے تو جنوری میں حلف اٹھاتے وقت وہ 78 برس کے ہوں گے۔ اس طرح انھوں نے عمر کے لحاظ سے صدر ٹرمپ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، کیونکہ صدر ٹرمپ جب وائٹ ہاوس پہنچے تھے تو وہ 70 برس کے تھے۔

جو بائیڈن 36 برس تک سنیٹر اور آٹھ برس تک صدر اباما کے بعد دوسرے اہم ترین عہدے پر فائز رہے ہیں۔ انھوں نے دو درجن ڈیموکریٹس امیدواروں کو شکست دے کر صدارت کے لیے نامزدگی حاصل کی ہے۔

جو بائیڈن، فائل فوٹو
جو بائیڈن، فائل فوٹو

انھوں نے اپنی مہم امریکیوں کے لئے ایک بہتر صحت کی دیکھ بھال کے وسیع تر نظام کی بنیاد پر بائیں بازو کے اعتدال پسند خیالات کے حامی کے طور پر چلائی ہے۔ وہ ماحول کو بہتر بنانے کے نظام کے علم بردار ہیں اور روایتی امریکی اتحادیوں کے ساتھ دوبارہ معاہدہ کرنا چاہتے ہیں جن سے صدر ٹرمپ نے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔

اپنی پوری انتخابی مہم کے دوران جو بائیڈن نے کہا کہ وہ ٹرمپ کی انتظامیہ کی غیر معمولی اقدامات کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

جو بائیڈن اگر منتخب ہو گئے تو یقیناً وہ متعدد بین الااقوامی معاہدوں میں دوبارہ شامل ہو جائیں گے۔ جن سے صدر ٹرمپ نے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ جیسے ماحولیات سے متعلق پیرس معاہدہ اور ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ شامل ہیں۔

XS
SM
MD
LG