شارلیٹ، نارتھ کیرولینا —
ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے عوامی رائے کا جائزہ لینے والی مارجیو ماریو کہا کہنا ہے کہ 2008ء کے انتخابات ’’تاریخی‘‘ تھے جن کا مقابلہ کرنا مشکل ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ گزشتہ انتخابات اس لحاظ سے منفرد تھے کہ اس میں شریک دونوں امید وار پہلی مرتبہ عہدہ صدارت حاصل کرنے کے لیے میدان میں اترے تھے۔
’’کوئی بھی امید وار دوسری مدت صدارت کے لیے نہیں لڑ رہا تھا اس لیے یہ بات حیران کن نہیں ہونی چاہیئے کہ آج لوگوں کا جوش و خروش پہلے سے کم ہے۔‘‘
تجزیہ کاروں کے مطابق پارٹی کنونشن سے خطاب میں براک اوباما کو ایک صدر کے طور پر اپنی کامیابیاں واضح طور پر بیان کرنی ہوں گی، لیکن قدامت پسند امریکی تھنک ٹینک ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے برائن ڈارلنگ کہتے ہیں کہ ایسا کرنا آسان نہیں ہو گا۔
’’ووٹروں کی نظر میں حالات اتنی جلدی بہتر نہیں ہو رہے جتنا لوگ چاہتے ہیں۔ لوگ ملازمتوں میں اضافہ اور حکومت کے قرضوں میں کمی دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ملک کو درپیش معاشی مشکلات کے باعث صدر اوباما کے لیے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے سفید فام امریکی ووٹرز کو اپنی جانب راغب کرنا سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔ تاہم خواتین اور اقلیتی گروہوں میں صدر اوباما اب بھی بہت مقبول ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق 61 فیصد ہسپانوی نژاد ووٹرز صدر اوباما کے حامی ہیں لیکن برائن ڈارلنگ کہتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ریپبلیکن صدارتی امیدوار مٹ رومنی ہسپانوی نژاد ووٹرز کے درمیان اپنی مقبولیت میں شاید کچھ اضافہ کر سکیں۔
’’ان کے خیال میں بہت سے لاطینی امریکی سماجی معاملات میں قدامت پسند ہیں اور وہ مٹ رومنی کی جانب مائل ہو سکتے ہیں۔‘‘
معاشی اور سماجی پالیسیوں کی بنیاد پرتو صدر اوباما اور مٹ رومنی ایک دوسرے سے انتہائی مختلف دیکھائی دینا چاہتے ہیں لیکن جب بات ووٹرز کو اپنی شخصیت کی بنیاد پر مرعوب کرنے کی آتی ہے تو دونوں امیدوار ایک ہی نتیجہ چاہتے ہیں۔ تاہم صدر اوباما مٹ رومنی سے آگے ہیں۔
مارجیو ماریو کہتی ہیں کہ ووٹر کے لیے یہ احساس زیادہ ضروری ہے کہ امیدوار اس کے مسائل سمجھتا ہے۔ ’’ امریکی ووٹرز کی نظر میں وہ لیڈر کون ہے اس کا فیصلہ 6 نومبر کو ہو جائے گا۔‘‘
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ گزشتہ انتخابات اس لحاظ سے منفرد تھے کہ اس میں شریک دونوں امید وار پہلی مرتبہ عہدہ صدارت حاصل کرنے کے لیے میدان میں اترے تھے۔
’’کوئی بھی امید وار دوسری مدت صدارت کے لیے نہیں لڑ رہا تھا اس لیے یہ بات حیران کن نہیں ہونی چاہیئے کہ آج لوگوں کا جوش و خروش پہلے سے کم ہے۔‘‘
تجزیہ کاروں کے مطابق پارٹی کنونشن سے خطاب میں براک اوباما کو ایک صدر کے طور پر اپنی کامیابیاں واضح طور پر بیان کرنی ہوں گی، لیکن قدامت پسند امریکی تھنک ٹینک ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے برائن ڈارلنگ کہتے ہیں کہ ایسا کرنا آسان نہیں ہو گا۔
’’ووٹروں کی نظر میں حالات اتنی جلدی بہتر نہیں ہو رہے جتنا لوگ چاہتے ہیں۔ لوگ ملازمتوں میں اضافہ اور حکومت کے قرضوں میں کمی دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ملک کو درپیش معاشی مشکلات کے باعث صدر اوباما کے لیے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے سفید فام امریکی ووٹرز کو اپنی جانب راغب کرنا سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔ تاہم خواتین اور اقلیتی گروہوں میں صدر اوباما اب بھی بہت مقبول ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق 61 فیصد ہسپانوی نژاد ووٹرز صدر اوباما کے حامی ہیں لیکن برائن ڈارلنگ کہتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ریپبلیکن صدارتی امیدوار مٹ رومنی ہسپانوی نژاد ووٹرز کے درمیان اپنی مقبولیت میں شاید کچھ اضافہ کر سکیں۔
’’ان کے خیال میں بہت سے لاطینی امریکی سماجی معاملات میں قدامت پسند ہیں اور وہ مٹ رومنی کی جانب مائل ہو سکتے ہیں۔‘‘
معاشی اور سماجی پالیسیوں کی بنیاد پرتو صدر اوباما اور مٹ رومنی ایک دوسرے سے انتہائی مختلف دیکھائی دینا چاہتے ہیں لیکن جب بات ووٹرز کو اپنی شخصیت کی بنیاد پر مرعوب کرنے کی آتی ہے تو دونوں امیدوار ایک ہی نتیجہ چاہتے ہیں۔ تاہم صدر اوباما مٹ رومنی سے آگے ہیں۔
مارجیو ماریو کہتی ہیں کہ ووٹر کے لیے یہ احساس زیادہ ضروری ہے کہ امیدوار اس کے مسائل سمجھتا ہے۔ ’’ امریکی ووٹرز کی نظر میں وہ لیڈر کون ہے اس کا فیصلہ 6 نومبر کو ہو جائے گا۔‘‘