بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کے مضافات میں ایک آٹھ منزلہ فیکٹری جب بُدھ کے روزمنہدم ہو گئی تو اس نے خاصی تباہی مچا دی۔ اور دو سو سے زیادہ انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ لیکن اخبار کرسچن سائینس مانیٹر کے بقول اس حادثے سے وحشت ضرور ہوئی۔ لیکن کسی کو تعجُّب نہ ہوا۔
اخبار کہتا ہے کہ جنوبی ایشیا کے اس ملک میں اس قسم کے ہلاکت خیز صنعتی حادثات کم و بیش باقاعدگی کے ساتھ ہوتے رہتے ہیں۔ یہ ملک سلے سلائے کپڑے برآمد کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ لیکن وہاں لیبر اور تعمیر کے معیار ناقص ہیں۔ اور مزدوروں کو کم سے کم اجرت ملتی ہے۔ کپڑے سینے والے ایسے کارخانوں میں یومیہ اُجرت محض 37 ڈالر ہے۔
اخبار یاد دلاتا ہے کہ ابھی پانچ ماہ قبل اسی شہر کی ایک اور ایسی ہی فیکٹری میں آگ لگنے سے 111 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ جس پر بنگلہ دیش کی حکومت اور وال مارٹ سمیت اُن کمپنیوں کی طرف سے جو وُہاں کپڑے سلواتے ہیں، اظہار افسوس کے ساتھ ساتھ اصلاحات کے بُلند بانگ دعوے کئے گئے تھے۔
اخبار کا سوال ہے کہ ان حادثات کی ذمٓہ داری بالآخر کس پر آتی ہے۔ اور کیا اُنہیں روکا جا سکتا ہے۔ جب اس قسم کا حادثہ رونما ہوتا ہے تو ہر متعلّقہ شخص دوسرے کے خلاف اُنگلی اُٹھاتا ہے، الزام فیکٹری کے مالکان، حکومت یا مال خریدنے والی کمپنیوں پر لگایا جاتا ہے، لیکن کپڑے بنانے والوں اور اسے بیچنے والوں کے درمیان اتنے فریق آتے ہیں کہ یہ طے کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ عمار ت کے معیار کی ذمّہ داری کس پر ڈالی جائے۔
اخبار کہتا ہے کہ اقوام متحدہ اس وقت ان تمام مرحلوں کو ایک معیار پر لانے کی کوشش کر رہا ہے جس کے لئے سلے سلائے کپڑوں کے کاروبار سے وابستہ کمپنیوں کو ایک جگہ لا کر یہ دیکھا جا رہا ہے کہ وہ کیا معیار برت رہے ہیں اوران کی مسابقت کرنے والوں کے مقابلے میں ان کی کیا پوزیشن ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ موجودہ عالمی معیشت میں دیکھنا یہ ہے کہ مزدوروں کے بارے میں کیا شرائط قابل قبو ل ہو سکتی ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کئی ایسے ممالک ہیں، جہاں چودہ سال تک کی عمر کی لڑکیاں فیکٹریوں میں کام کر سکتی ہیں لیکن، اس کے برعکس امریکہ اور برطانیہ جیسی منڈیوں میں یہ بات قابل قبول نہیں ہے۔
نیو یارک ٹائمز کے ایڈیٹوریل بورڈ نے گوانتانامو بے کے فوجی قید خانے کے حالات پر ایک خصوصی ادارئے میں کیوبا کی سرزمین پر قائم اس قید خانے میں محبوس 166 افراد کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ ان تمام افراد پر ابھی تک کوئی فرد جرم عائد نہیں کی گئی ہے۔ جن میں سے بعض دس سال سے مقیّد ہیں۔
اگرچہ ان میں سے نصف قیدیوں کو رہا کر دینے کا اہل قرار دیا گیا ہے۔ وُہ ابھی تک حراست میں ہیں، کیونکہ قانون کا تقاضہ ہے کہ ہر ایسے قیدی کی رہائی کے لئے محکمہ دفاع کی منظوری لازمی ہے۔ اور اوبامہ انتظامیہ نے محکمہ خارجہ میں وہ اسامی ختم کر دی ہے، جس کے ذمّے یہ کام تھا کہ وہ دوسرے ملکوں کے ساتھ مل کر کام کرے تاکہ ایسے قیدیوں کے لئے منظوری کے کاغذات حاصل کرنے کے بعد انہیں وہاں بھیج دیا جائے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس وقت اس قید خانے میں تین ماہ سے بُھوک ہڑتال جاری ہے، جس میں 93 قیدی شرکت کر رہے ہیں۔ اور امریکی فوجیوں کو اُنہیں زبر دستی کھانا کھلانے کی ذمّہ داری سونپی گئی ہے۔ جس کے لئے قیدیوں کو کرسیوں سے باندھ کر نلکیوں کے ذریعے ان کے حلق سے خوراک ٹپکائی جاتی ہے۔
سابق صدر جارج ڈبلیو بُش کی لائیبریری کے افتتاح پر واشنگٹن پوسٹ کے معروف کالم نگار یوجین رابن سن نے اُن کے عہد صدارت کی پالیسوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ خاص طور پر نائن الیون کے قیدیوں کی تفتیش میں واٹر بورڈنگ کے استعمال کو۔
وہ کہتے ہیں کہ افغانستان سے وسائل ہٹا کر عراق پر حملہ اور اس پر قبضہ کرنے کا جو فیصلہ مسٹر بُش نے کیا تھا اس وقت کسی کو اس کا صحیح اندازہ نہیں تھا کہ طالبان کو سنبھلنے اور پھر سے مُجتمع ہونے کا موقع ملے گا، اور اس طرح افغانستان امریکہ کے لئے طویل ترین جنگ کا میدان کارزار بن جائے گا۔ کالم نگار نے البتہ مسٹر بُش کی اس بات پر تعریف کی ہے کہ اُنہوں نے افریقہ میں ایڈز کے مریضوں کے علاج کے لئے دواؤں کی فراہمی ممکن بنائی اور اس طرح لاکھوں انسانی جانیں بچائی گئیں۔
اخبار کہتا ہے کہ جنوبی ایشیا کے اس ملک میں اس قسم کے ہلاکت خیز صنعتی حادثات کم و بیش باقاعدگی کے ساتھ ہوتے رہتے ہیں۔ یہ ملک سلے سلائے کپڑے برآمد کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ لیکن وہاں لیبر اور تعمیر کے معیار ناقص ہیں۔ اور مزدوروں کو کم سے کم اجرت ملتی ہے۔ کپڑے سینے والے ایسے کارخانوں میں یومیہ اُجرت محض 37 ڈالر ہے۔
اخبار یاد دلاتا ہے کہ ابھی پانچ ماہ قبل اسی شہر کی ایک اور ایسی ہی فیکٹری میں آگ لگنے سے 111 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ جس پر بنگلہ دیش کی حکومت اور وال مارٹ سمیت اُن کمپنیوں کی طرف سے جو وُہاں کپڑے سلواتے ہیں، اظہار افسوس کے ساتھ ساتھ اصلاحات کے بُلند بانگ دعوے کئے گئے تھے۔
اخبار کا سوال ہے کہ ان حادثات کی ذمٓہ داری بالآخر کس پر آتی ہے۔ اور کیا اُنہیں روکا جا سکتا ہے۔ جب اس قسم کا حادثہ رونما ہوتا ہے تو ہر متعلّقہ شخص دوسرے کے خلاف اُنگلی اُٹھاتا ہے، الزام فیکٹری کے مالکان، حکومت یا مال خریدنے والی کمپنیوں پر لگایا جاتا ہے، لیکن کپڑے بنانے والوں اور اسے بیچنے والوں کے درمیان اتنے فریق آتے ہیں کہ یہ طے کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ عمار ت کے معیار کی ذمّہ داری کس پر ڈالی جائے۔
اخبار کہتا ہے کہ اقوام متحدہ اس وقت ان تمام مرحلوں کو ایک معیار پر لانے کی کوشش کر رہا ہے جس کے لئے سلے سلائے کپڑوں کے کاروبار سے وابستہ کمپنیوں کو ایک جگہ لا کر یہ دیکھا جا رہا ہے کہ وہ کیا معیار برت رہے ہیں اوران کی مسابقت کرنے والوں کے مقابلے میں ان کی کیا پوزیشن ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ موجودہ عالمی معیشت میں دیکھنا یہ ہے کہ مزدوروں کے بارے میں کیا شرائط قابل قبو ل ہو سکتی ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کئی ایسے ممالک ہیں، جہاں چودہ سال تک کی عمر کی لڑکیاں فیکٹریوں میں کام کر سکتی ہیں لیکن، اس کے برعکس امریکہ اور برطانیہ جیسی منڈیوں میں یہ بات قابل قبول نہیں ہے۔
نیو یارک ٹائمز کے ایڈیٹوریل بورڈ نے گوانتانامو بے کے فوجی قید خانے کے حالات پر ایک خصوصی ادارئے میں کیوبا کی سرزمین پر قائم اس قید خانے میں محبوس 166 افراد کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ ان تمام افراد پر ابھی تک کوئی فرد جرم عائد نہیں کی گئی ہے۔ جن میں سے بعض دس سال سے مقیّد ہیں۔
اگرچہ ان میں سے نصف قیدیوں کو رہا کر دینے کا اہل قرار دیا گیا ہے۔ وُہ ابھی تک حراست میں ہیں، کیونکہ قانون کا تقاضہ ہے کہ ہر ایسے قیدی کی رہائی کے لئے محکمہ دفاع کی منظوری لازمی ہے۔ اور اوبامہ انتظامیہ نے محکمہ خارجہ میں وہ اسامی ختم کر دی ہے، جس کے ذمّے یہ کام تھا کہ وہ دوسرے ملکوں کے ساتھ مل کر کام کرے تاکہ ایسے قیدیوں کے لئے منظوری کے کاغذات حاصل کرنے کے بعد انہیں وہاں بھیج دیا جائے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس وقت اس قید خانے میں تین ماہ سے بُھوک ہڑتال جاری ہے، جس میں 93 قیدی شرکت کر رہے ہیں۔ اور امریکی فوجیوں کو اُنہیں زبر دستی کھانا کھلانے کی ذمّہ داری سونپی گئی ہے۔ جس کے لئے قیدیوں کو کرسیوں سے باندھ کر نلکیوں کے ذریعے ان کے حلق سے خوراک ٹپکائی جاتی ہے۔
سابق صدر جارج ڈبلیو بُش کی لائیبریری کے افتتاح پر واشنگٹن پوسٹ کے معروف کالم نگار یوجین رابن سن نے اُن کے عہد صدارت کی پالیسوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ خاص طور پر نائن الیون کے قیدیوں کی تفتیش میں واٹر بورڈنگ کے استعمال کو۔
وہ کہتے ہیں کہ افغانستان سے وسائل ہٹا کر عراق پر حملہ اور اس پر قبضہ کرنے کا جو فیصلہ مسٹر بُش نے کیا تھا اس وقت کسی کو اس کا صحیح اندازہ نہیں تھا کہ طالبان کو سنبھلنے اور پھر سے مُجتمع ہونے کا موقع ملے گا، اور اس طرح افغانستان امریکہ کے لئے طویل ترین جنگ کا میدان کارزار بن جائے گا۔ کالم نگار نے البتہ مسٹر بُش کی اس بات پر تعریف کی ہے کہ اُنہوں نے افریقہ میں ایڈز کے مریضوں کے علاج کے لئے دواؤں کی فراہمی ممکن بنائی اور اس طرح لاکھوں انسانی جانیں بچائی گئیں۔