واشنگٹن —
صدر براک اوباما کے مشرق وسطیٰ کے دورے پر ’وال سٹریٹ جرنل‘ ایک تبصرے میں کہتا ہے کہ امریکی صدر نے خطے میں امن کی مساعی کو نئے سرے سے شروع کرنے کی غرض سے یروشلم میں ایک تقریر کے دوران اسرائیلی عوام کے دل موہ لینے کی کوشش کی اور پھر اُن کو یہ مخلصانہ مشورہ دیا کہ اگر وُہ امن چاہتے ہیں تو فلسطینیوں کے ساتھ اُن کے برتاؤ میں بہتری آنی چاہئیے۔
صدر اوباما نے فلسطینی لیڈروں سے ملاقات کی غرض سے مغربی کنارے کا بھی دورہ کیا، جس سے کُچھ ہی دیر پہلے غزّہ کی پٹی سے فلسطینی جنگجؤوں نے جنوبی اسرائیل پر چار راکیٹ داغے، جن سے کوئی شخص زخمی نہیں ہوا۔
اخبار کہتا ہے کہ اپنے تین روزہ دورے میں مسٹر اوباما نے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ ماضی کی تلخیاں ختم کرنے اور اسرائیلی عوام کو ہم نوا بنانے کی کوشش کی، جِن کی مسٹر اوباما کے بارے میں اب تک یہ رائے تھی کہ وُہ یا تو غیر جانب دار ہیں یا پھر فلسطینیوں کے طرف دار۔
لیکن، ایک دِن مسٹر نیتن یاہو کے ساتھ گزارنے اور اُن کے ساتھ مراسم مستحکم کرنے کے بعد امریکی صدر اپنی اپیل لے کر نو جوان اسرائیلیوں کے ایک مجمعے میں گئے جنہوں نے فلسطینیوں کے ساتھ بہتر برتاؤ اور مشرق وسطیٰ کے امن کے بارے میں اُن کے پیغام کو قبولیت کی نظر سے دیکھا۔
اخبار کہتا ہے کہ اُن کی آدھ گھنٹے کی تقریر پر والہانہ انداز میں تالیاں پیٹی گئیں، خاص طور پر جب اُنہوں نے کہا کہ اسرائیل کے لئے ایک یہودی اور جمہوری مملکت کی حیثیت سے پنپنے کا واحد راستہ ایک خود مختار اور مستحکم فلسطینی مملکت کے وجود کو دل سے تسلیم کرنے میں ہے۔
اخبار نے اوباما انتظامیہ کے ایک عہدہ دار کےحوالے سے بتایا ہے کہ ا س تقریر کا مقصد اسرائیلی عوام کو دوبارہ یہ باور کرانا تھا کہ امن کا قیام ممکن ہے، اور یہ کہ زیادہ پُر عزم تجاویز سامنے لانے کے لئے امن پہلا لازمی قدم ہے۔
چنانچہ، نئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے یہ تعیُّن کرنے کے لئے کہ امن مذاکرات کو کس طرح نئے سرے سے شروع کیا جائے، اسرائیلی، فلسطینی اور علاقائی لیڈروں کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
اخبار کے مطابق فلسطینی صدر محمود عبّاس نے مسٹر اوباما کے ساتھ ملاقات کے بعد پیش رفت کی امّید کا اظہار کیا۔ لیکن، ساتھ ساتھ اس حقیقت کی طرف بھی توجُّہ دلائی کہ مغربی کنارے پر یہودی بستیوں کی موجودگی دو مملکتوں والے حل کی راہ میں ایک روکاوٹ ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اوباما اپنی پہلی میعاد صدارت کے دوران کے اس موقّف سے پیچھے ہٹ گئے ہیں کہ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے سے پہلے اسرئیل نئی بستیوں کی تعمیر پر روک لگانی ہوگی۔
’سی ایٹل ٹائمز‘ میں عراق پر امریکی حملے کی دسویں سالگرہ پر معروف کالم نگار ٹم فریڈ مان کہتے ہیں کہ اس موقع پر تین چیزیں واضح ہیں۔ اوّل ، عراق میں کُچھ بھی ہو، اس حقیقت سے مفر نہیں کہ امریکہ نے اس کے لئے حد سے زیادہ قیمت ادا کی ۔
دوسری بات یہ ہے کہ آپ ایک نہایت عمدہ چیز کے لئے زیادہ قیمت ادا کرتے ہیں ، یا ، پھر سراسر کباڑخانے کے لئے بھی زیادہ قیمت ادا کرتے ہیں۔ عراق میں زیادہ قیمت کس لئے ادا کی گئی ، یہ بات ابھی واضح نہیں ہے اور اس کا تعیُّن عراقی خود کریں گے۔ تیسری بات یہ ہے کہ ہم عراق کو بُھلانے کی کتنی بھی کوشش کریں اس حقیقت سے بھی مفر نہیں ہے کہ اُس ملک میں جو کُچھ بھی ہوگا ، اُس کی پُورے مشرق وسطیٰ میں پہلے سے بھی زیادہ اہمیت ہے۔
فریڈمان کہتے ہیں کہ جابرانہ ڈکٹیٹر شپ کی تاریخ کو ذہن میں رکھا جائے تو جمہوریت کے فروغ کی کوشش کے لئے عراق سب سے آخری ملک ہونا چاہئیے تھا ۔ بہر حال، امریکہ نےعراق میں ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ کردیا ، جب کہ عوام نے تیونس ، مصر ، یمن، اور لبیا میں یہی کام سرانجام دیا اور شام میں بھی عنقریب یہی کچھ ہونے والا ہے ۔
لیکن، ان تمام ملکوں کے بارے میں ایک ہی قسم کے سوالات اُٹھتے ہیں۔ یعنی ، کیا اُن میں مستحکم ، شُستہ اور نمائیدہ حکومتیں قائم کرنے کی صلاحیت ہے؟ کیا اُن میں شیعہ ، سُنّی، کُرد اور عیسائی یا سیکیولر اور اسلام پسندلوگ شہریوں کی طرح رہ سکتے ہیں اور اقتدار میں شراکت دار ہو سکتے ہیں؟
اگر یہ ممکن ہے ، تو اِ س خطّے میں جمہوری سیاست کا مُستقبل ہے۔ اگر ایسانہیں ہے، تو پھر اس کا مستقبل ہیبت ناک ہوگا ، جہاں مختار کُل ڈکٹیٹروں کو تو ہٹا دیا گیا ہوگا۔ لیکن، ان کی جگہ ایک دوسرے کے حریف فرقے، ٹولے اور قبائل سنبھالیں گے اور اس طرح کروڑوں عرب عوام کی ترقّی کے لئے ضروری صاف شفاف انتظامیہ کا خواب کبھی شرمندہٴ تعبیر نہ ہو گا۔
فریڈمان کہتے ہیں کہ اس وقت مشرق وسطیٰ میں امن کے جس عمل کی ضرورت ہے وہ نہ صرف سنُیوں، شیعوں ، عیسائیوں اور کُردوں کے درمیان ہونا چاہئیے، بلکہ اسلام پسندوں اور سیکیولرسٹوں کے درمیان بھی۔
صدر اوباما نے فلسطینی لیڈروں سے ملاقات کی غرض سے مغربی کنارے کا بھی دورہ کیا، جس سے کُچھ ہی دیر پہلے غزّہ کی پٹی سے فلسطینی جنگجؤوں نے جنوبی اسرائیل پر چار راکیٹ داغے، جن سے کوئی شخص زخمی نہیں ہوا۔
اخبار کہتا ہے کہ اپنے تین روزہ دورے میں مسٹر اوباما نے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ ماضی کی تلخیاں ختم کرنے اور اسرائیلی عوام کو ہم نوا بنانے کی کوشش کی، جِن کی مسٹر اوباما کے بارے میں اب تک یہ رائے تھی کہ وُہ یا تو غیر جانب دار ہیں یا پھر فلسطینیوں کے طرف دار۔
لیکن، ایک دِن مسٹر نیتن یاہو کے ساتھ گزارنے اور اُن کے ساتھ مراسم مستحکم کرنے کے بعد امریکی صدر اپنی اپیل لے کر نو جوان اسرائیلیوں کے ایک مجمعے میں گئے جنہوں نے فلسطینیوں کے ساتھ بہتر برتاؤ اور مشرق وسطیٰ کے امن کے بارے میں اُن کے پیغام کو قبولیت کی نظر سے دیکھا۔
اخبار کہتا ہے کہ اُن کی آدھ گھنٹے کی تقریر پر والہانہ انداز میں تالیاں پیٹی گئیں، خاص طور پر جب اُنہوں نے کہا کہ اسرائیل کے لئے ایک یہودی اور جمہوری مملکت کی حیثیت سے پنپنے کا واحد راستہ ایک خود مختار اور مستحکم فلسطینی مملکت کے وجود کو دل سے تسلیم کرنے میں ہے۔
اخبار نے اوباما انتظامیہ کے ایک عہدہ دار کےحوالے سے بتایا ہے کہ ا س تقریر کا مقصد اسرائیلی عوام کو دوبارہ یہ باور کرانا تھا کہ امن کا قیام ممکن ہے، اور یہ کہ زیادہ پُر عزم تجاویز سامنے لانے کے لئے امن پہلا لازمی قدم ہے۔
چنانچہ، نئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے یہ تعیُّن کرنے کے لئے کہ امن مذاکرات کو کس طرح نئے سرے سے شروع کیا جائے، اسرائیلی، فلسطینی اور علاقائی لیڈروں کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
اخبار کے مطابق فلسطینی صدر محمود عبّاس نے مسٹر اوباما کے ساتھ ملاقات کے بعد پیش رفت کی امّید کا اظہار کیا۔ لیکن، ساتھ ساتھ اس حقیقت کی طرف بھی توجُّہ دلائی کہ مغربی کنارے پر یہودی بستیوں کی موجودگی دو مملکتوں والے حل کی راہ میں ایک روکاوٹ ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اوباما اپنی پہلی میعاد صدارت کے دوران کے اس موقّف سے پیچھے ہٹ گئے ہیں کہ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے سے پہلے اسرئیل نئی بستیوں کی تعمیر پر روک لگانی ہوگی۔
’سی ایٹل ٹائمز‘ میں عراق پر امریکی حملے کی دسویں سالگرہ پر معروف کالم نگار ٹم فریڈ مان کہتے ہیں کہ اس موقع پر تین چیزیں واضح ہیں۔ اوّل ، عراق میں کُچھ بھی ہو، اس حقیقت سے مفر نہیں کہ امریکہ نے اس کے لئے حد سے زیادہ قیمت ادا کی ۔
دوسری بات یہ ہے کہ آپ ایک نہایت عمدہ چیز کے لئے زیادہ قیمت ادا کرتے ہیں ، یا ، پھر سراسر کباڑخانے کے لئے بھی زیادہ قیمت ادا کرتے ہیں۔ عراق میں زیادہ قیمت کس لئے ادا کی گئی ، یہ بات ابھی واضح نہیں ہے اور اس کا تعیُّن عراقی خود کریں گے۔ تیسری بات یہ ہے کہ ہم عراق کو بُھلانے کی کتنی بھی کوشش کریں اس حقیقت سے بھی مفر نہیں ہے کہ اُس ملک میں جو کُچھ بھی ہوگا ، اُس کی پُورے مشرق وسطیٰ میں پہلے سے بھی زیادہ اہمیت ہے۔
فریڈمان کہتے ہیں کہ جابرانہ ڈکٹیٹر شپ کی تاریخ کو ذہن میں رکھا جائے تو جمہوریت کے فروغ کی کوشش کے لئے عراق سب سے آخری ملک ہونا چاہئیے تھا ۔ بہر حال، امریکہ نےعراق میں ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ کردیا ، جب کہ عوام نے تیونس ، مصر ، یمن، اور لبیا میں یہی کام سرانجام دیا اور شام میں بھی عنقریب یہی کچھ ہونے والا ہے ۔
لیکن، ان تمام ملکوں کے بارے میں ایک ہی قسم کے سوالات اُٹھتے ہیں۔ یعنی ، کیا اُن میں مستحکم ، شُستہ اور نمائیدہ حکومتیں قائم کرنے کی صلاحیت ہے؟ کیا اُن میں شیعہ ، سُنّی، کُرد اور عیسائی یا سیکیولر اور اسلام پسندلوگ شہریوں کی طرح رہ سکتے ہیں اور اقتدار میں شراکت دار ہو سکتے ہیں؟
اگر یہ ممکن ہے ، تو اِ س خطّے میں جمہوری سیاست کا مُستقبل ہے۔ اگر ایسانہیں ہے، تو پھر اس کا مستقبل ہیبت ناک ہوگا ، جہاں مختار کُل ڈکٹیٹروں کو تو ہٹا دیا گیا ہوگا۔ لیکن، ان کی جگہ ایک دوسرے کے حریف فرقے، ٹولے اور قبائل سنبھالیں گے اور اس طرح کروڑوں عرب عوام کی ترقّی کے لئے ضروری صاف شفاف انتظامیہ کا خواب کبھی شرمندہٴ تعبیر نہ ہو گا۔
فریڈمان کہتے ہیں کہ اس وقت مشرق وسطیٰ میں امن کے جس عمل کی ضرورت ہے وہ نہ صرف سنُیوں، شیعوں ، عیسائیوں اور کُردوں کے درمیان ہونا چاہئیے، بلکہ اسلام پسندوں اور سیکیولرسٹوں کے درمیان بھی۔