’کیا اوبامہ کو ایران جانا چاہئیے؟’۔ اس فکر انگیز عنوان سے ’کرسچن سائینس مانٹر‘ ایک مضمون میں یاد دلاتا ہے کہ صدر نکسن ایک وقت اِسی طرح چین کے دورے پر گئے تھے۔
اخبار کہتا ہے کہ عالمی طاقتوں اور خاص طور پر امریکہ کو حالات میں ایسی تبدیلی کی ضرورت ہے جس سے ایران کو اپنے جوہری پروگرام کےبارے میں تعاون کا رویّہ اختیار کرنے پر مائل کیا جاسکے۔
اخبار نے بعض تجزیہ کاروں کے حوالے سے بتایاہے کہ ایران کو صدر اوبامہ کی طرف سے اس قسم کی سلسلہ جُنبانی ایک فکر انگیز خیال ہے جس کا متبادل فوجی محاذ آرائی ہی ہو سکتی ہے۔اوریہ خیال ایرانی عُہدہ داروں کے ساتھ اُن اعلیٰ سطح کے مذاکرات کے تناظُر میں پیش کیا گیا ہے جن میں روس، امریکہ، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ماہرین ایران کو اپنے جوہری ہتھیار بنانے کے پروگرام سے دست بردار ہونے پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ 34 برس قبل اپنے انقلاب کے بعد سے ایران نے مشرق وسطیٰ میں کلیدی کامیابیاں حاصل کر لی ہیں۔ اور وُہ ایک ایسے جوہری پروگرام پر عمل پیرا ہے جس کی رفتار میں کوئی کمی آنے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے، باوجودیکہ مغرب نے اُس کے خلا ف اقتصادی تعزیرات کی بھر مار کر دی ہے ۔ عالمی طاقتوں نے ایران کو تعزیرات میں نرمی کرنے کی پیشکش کی تھی ، بشرطیکہ وُہ یورینیم کی افزودگی کا تناسُب بیس فیصد تک محدود رکھے۔ یہ وہ تناسب ہے جسے جلدی سے مزید افزودہ بنایا جا سکتا ہے اور ہتھیاروں کے درجے کے ایندھن میں بدلا جا سکتا ہے۔ اس پر ایران نے جوابی پیش کش کا وعدہ کیا ہے۔
اخبار کہتاہے کہ چونکہ ان مذاکرات سے نہایت ہی کم امُیدیں وابستہ کی جارہی ہیں، اس لئے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی طاقتوں اور بالخصوص امریکہ کو چاہئیےکہ اگر وُہ ایران کی طرف سے تبدیلی کے خواہاں ہیں اور آنے والے موسم گرما میں مشرق وسطیٰ میں ایک اور جنگ سے بچنا چاہتے ہیں، تو اس سے زیادہ بڑی پیشکش کریں۔
تعزیرات میں یہ معمولی سی نرمی کرنے کی بجائے، پینسلوینیہ یونیورسٹی کے پروفیسر فلِنٹ لیوریٹ کی رائے یہ ہے کہ امریکی صدر کو بالآخر اُسی قسم کا قدم اُٹھانا پڑے گا جیسے صدر نکسن کے دور میں 1972 ءمیں چین کے ساتھ مراسم بڑھانے کے لئے اُٹھایا تھا، یعنی ایران اور اُس کی خودمختارانہ خارجہ حکمت عملی کو قبولیت دینی ہوگی۔
علاقے کے ماہرین کے حوالے سے اخبار کہتا ہے کہ واشنگٹن اور تہران کے درمیان جو فاصلے ہیں اُن کو دور کئے بغیر ایران کے جوہری بُحران کا حل ناممکن ہے، جب کہ بعض سخت گیر ری پبلکن ارکان سمیت کچھ اور ماہرین کا انتباہ ہے کہ ایران امریکہ کے ساتھ مذاکرات کو طُول دیتا رہے گا، تاکہ جوہری محاذ پر آگے بڑھ سکے۔
اِس کے برعکس، پروفیسر لیو ریٹ کا خیال ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ نے اگر تیسر ی بار فوجی مداخلت کی تو اس کا نتیجہ تباہ کُن ہوگا۔ پروفیسر لیوریٹ جو نکسن عہد صدارت میں امریکی قومی سلامتی کونسل کے ڈئرکٹر رہ چُکے ہیں ، کہتے ہیں کہ جس طرح صدر نکسن نے چین کی طرف پالیسی کا رُخ بدل کر ایشیا میں امریکی پوزیشن کو بچا لیا تھا ، ایران کی طرف اُسی طرح کا طرز عمل اختیار کر کے مسٹر اوبامہ ایسے ہی نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔
مالی میں شدت پسندوں کے خلاف بیرونی امداد سے جو جنگ جاری ہے ، اُس پر ’ وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہےکہ فرانسیسی فوجیں باقاعدہ طور پر ان جنگجؤوں سے بر سر پیکار ہیں ، جب کہ اوبامہ انتظامیہ نے اس میں امریکی کردار کو لوجسٹکل اور انٹلی جنس امداد تک محدود رکھا ہے ۔ اس کے علاوہ، قریبی ملک نِیجر سے امریکی ڈرون طیارے دیکھ بھال کی ذمّہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں۔
کیونکہ، امریکہ باور کرتا ہے کہ القاعدہ سے وابستہ ان شدّت پسندوں کے خلاف لڑائی میں فرانس، نائجیریزاور اُن دوسرے افریقی اتّحادی ملکوں کو شرکت کرنی چاہئیے اور اس کے اخراجات برداشت کرنے چاہئیں، جن کاوہاں بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔
یہ بات امریکہ کے وسیع تر طرز عمل کے عین مُطابق ہے۔ اور جیسا کہ اخبار کہتا ہے ایک عشرے سے زیادہ برّی لڑائیوں میں اُلجھے رہنے کے بعد، جن میں فوج کی بھاری نفری نے شرکت کی ، امریکی بجٹ پر بُہت دباؤ پڑا ہے اورملک جنگ سے اُکتا گیا ہے ، امریکہ کا علاقائی طاقتوں پر انحصار بڑھ گیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ صدر اوبامہ نے قومی سلامتی کی نئی ٹیم چُنی ہے ، اس سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ دہشت گردی کے جنگ میں سپیشل فورسز، ڈرون طیاروں اور مقامی شراکت داروں پر اُس کا زیادہ انحصار ہوگا۔
سابق صدربل کلنٹن کو لنکن لیڈرشپ انعام دیا جار ہا ہے ۔ وہ تاریخ کے پہلے سابق صدر ہیں جنہیں مئی میں ایک خاص تقریب میں ساری زندگی عوام کی خدمت کے صلے میں یہ اعزاز دیاجا رہا ہے۔ میکس نیوز کے مطابق ابراہام لنکں لائبرری فونڈیشن نے اعلان کیا ہے کہ صدر کلنٹن ساری عمر عوامی خدمت کا جو بِیڑا اُٹھایا ہے، وُہ صدر لنکن کے ترکے کے اُن خواص سے عبارت ہے جن کی وجہ سےاُن کا اس ملک کے عظیم لیڈروں میں شمار ہوگا۔
اخبار کہتا ہے کہ عالمی طاقتوں اور خاص طور پر امریکہ کو حالات میں ایسی تبدیلی کی ضرورت ہے جس سے ایران کو اپنے جوہری پروگرام کےبارے میں تعاون کا رویّہ اختیار کرنے پر مائل کیا جاسکے۔
اخبار نے بعض تجزیہ کاروں کے حوالے سے بتایاہے کہ ایران کو صدر اوبامہ کی طرف سے اس قسم کی سلسلہ جُنبانی ایک فکر انگیز خیال ہے جس کا متبادل فوجی محاذ آرائی ہی ہو سکتی ہے۔اوریہ خیال ایرانی عُہدہ داروں کے ساتھ اُن اعلیٰ سطح کے مذاکرات کے تناظُر میں پیش کیا گیا ہے جن میں روس، امریکہ، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ماہرین ایران کو اپنے جوہری ہتھیار بنانے کے پروگرام سے دست بردار ہونے پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ 34 برس قبل اپنے انقلاب کے بعد سے ایران نے مشرق وسطیٰ میں کلیدی کامیابیاں حاصل کر لی ہیں۔ اور وُہ ایک ایسے جوہری پروگرام پر عمل پیرا ہے جس کی رفتار میں کوئی کمی آنے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے، باوجودیکہ مغرب نے اُس کے خلا ف اقتصادی تعزیرات کی بھر مار کر دی ہے ۔ عالمی طاقتوں نے ایران کو تعزیرات میں نرمی کرنے کی پیشکش کی تھی ، بشرطیکہ وُہ یورینیم کی افزودگی کا تناسُب بیس فیصد تک محدود رکھے۔ یہ وہ تناسب ہے جسے جلدی سے مزید افزودہ بنایا جا سکتا ہے اور ہتھیاروں کے درجے کے ایندھن میں بدلا جا سکتا ہے۔ اس پر ایران نے جوابی پیش کش کا وعدہ کیا ہے۔
اخبار کہتاہے کہ چونکہ ان مذاکرات سے نہایت ہی کم امُیدیں وابستہ کی جارہی ہیں، اس لئے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی طاقتوں اور بالخصوص امریکہ کو چاہئیےکہ اگر وُہ ایران کی طرف سے تبدیلی کے خواہاں ہیں اور آنے والے موسم گرما میں مشرق وسطیٰ میں ایک اور جنگ سے بچنا چاہتے ہیں، تو اس سے زیادہ بڑی پیشکش کریں۔
تعزیرات میں یہ معمولی سی نرمی کرنے کی بجائے، پینسلوینیہ یونیورسٹی کے پروفیسر فلِنٹ لیوریٹ کی رائے یہ ہے کہ امریکی صدر کو بالآخر اُسی قسم کا قدم اُٹھانا پڑے گا جیسے صدر نکسن کے دور میں 1972 ءمیں چین کے ساتھ مراسم بڑھانے کے لئے اُٹھایا تھا، یعنی ایران اور اُس کی خودمختارانہ خارجہ حکمت عملی کو قبولیت دینی ہوگی۔
علاقے کے ماہرین کے حوالے سے اخبار کہتا ہے کہ واشنگٹن اور تہران کے درمیان جو فاصلے ہیں اُن کو دور کئے بغیر ایران کے جوہری بُحران کا حل ناممکن ہے، جب کہ بعض سخت گیر ری پبلکن ارکان سمیت کچھ اور ماہرین کا انتباہ ہے کہ ایران امریکہ کے ساتھ مذاکرات کو طُول دیتا رہے گا، تاکہ جوہری محاذ پر آگے بڑھ سکے۔
اِس کے برعکس، پروفیسر لیو ریٹ کا خیال ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ نے اگر تیسر ی بار فوجی مداخلت کی تو اس کا نتیجہ تباہ کُن ہوگا۔ پروفیسر لیوریٹ جو نکسن عہد صدارت میں امریکی قومی سلامتی کونسل کے ڈئرکٹر رہ چُکے ہیں ، کہتے ہیں کہ جس طرح صدر نکسن نے چین کی طرف پالیسی کا رُخ بدل کر ایشیا میں امریکی پوزیشن کو بچا لیا تھا ، ایران کی طرف اُسی طرح کا طرز عمل اختیار کر کے مسٹر اوبامہ ایسے ہی نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔
مالی میں شدت پسندوں کے خلاف بیرونی امداد سے جو جنگ جاری ہے ، اُس پر ’ وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہےکہ فرانسیسی فوجیں باقاعدہ طور پر ان جنگجؤوں سے بر سر پیکار ہیں ، جب کہ اوبامہ انتظامیہ نے اس میں امریکی کردار کو لوجسٹکل اور انٹلی جنس امداد تک محدود رکھا ہے ۔ اس کے علاوہ، قریبی ملک نِیجر سے امریکی ڈرون طیارے دیکھ بھال کی ذمّہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں۔
کیونکہ، امریکہ باور کرتا ہے کہ القاعدہ سے وابستہ ان شدّت پسندوں کے خلاف لڑائی میں فرانس، نائجیریزاور اُن دوسرے افریقی اتّحادی ملکوں کو شرکت کرنی چاہئیے اور اس کے اخراجات برداشت کرنے چاہئیں، جن کاوہاں بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔
یہ بات امریکہ کے وسیع تر طرز عمل کے عین مُطابق ہے۔ اور جیسا کہ اخبار کہتا ہے ایک عشرے سے زیادہ برّی لڑائیوں میں اُلجھے رہنے کے بعد، جن میں فوج کی بھاری نفری نے شرکت کی ، امریکی بجٹ پر بُہت دباؤ پڑا ہے اورملک جنگ سے اُکتا گیا ہے ، امریکہ کا علاقائی طاقتوں پر انحصار بڑھ گیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ صدر اوبامہ نے قومی سلامتی کی نئی ٹیم چُنی ہے ، اس سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ دہشت گردی کے جنگ میں سپیشل فورسز، ڈرون طیاروں اور مقامی شراکت داروں پر اُس کا زیادہ انحصار ہوگا۔
سابق صدربل کلنٹن کو لنکن لیڈرشپ انعام دیا جار ہا ہے ۔ وہ تاریخ کے پہلے سابق صدر ہیں جنہیں مئی میں ایک خاص تقریب میں ساری زندگی عوام کی خدمت کے صلے میں یہ اعزاز دیاجا رہا ہے۔ میکس نیوز کے مطابق ابراہام لنکں لائبرری فونڈیشن نے اعلان کیا ہے کہ صدر کلنٹن ساری عمر عوامی خدمت کا جو بِیڑا اُٹھایا ہے، وُہ صدر لنکن کے ترکے کے اُن خواص سے عبارت ہے جن کی وجہ سےاُن کا اس ملک کے عظیم لیڈروں میں شمار ہوگا۔