رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: جنگی ہتھیاروں کی تجارت، معاہدہ


اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی

اِس کا مقصد اربوں ڈالر کی اسلحے کی اِس تجارت کو قاعدوں اور ضابطوں کے تحت لانا ہے اور غیر قانونی ہتھیار دہشت گردوں، باغی لشکریوں اور جرائم پیشہ ٹولوں کے ہاتھوں میں جانے سے روکنا ہے

جنگی ہتھیاروں کی تجارت کے ضابطے مقرر کرنے سے متعلّق معاہدے کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منظوری پر اخبار ’میامی ہیرلڈ‘ کہتا ہے کہ یہ قرارداد 3 ووٹوں کے مقابلے میں 154 کی اکثریت سے منظور ہوئی، جب کہ 23 ارکان نے ووٹ نہیں دیا۔

دس سال کی کوششوں کے بعد ووٹوں کی بھاری اکثریت سے منظور ہونے والا یہ پہلا معاہدہ ہے جس کا مقصد اربوں ڈالر کی اسلحے کی اس تجارت کو قاعدوں اور ضابطوں کے تحت لانا ہے اور غیر قانونی ہتھیار دہشت گردوں، باغی لشکریوں اور جرائم پیشہ ٹولوں کے ہاتھوں میں جانے سے روکنا ہے۔

ایران۔شمالی کوریا اور شام نے معاہدے کو روکنے کی کوشش کی اور اس کے خلاف ووٹ دیا۔ ووٹ دینے سے احتراز کرنے والے ملکوں میں رُوس اور چین شامل تھےجن کا شمار ہتھیار برآمد کرنے والے بڑے ملکوں میں ہوتا ہے۔

امریکہ سمیت متعدد ملکوں کا ہتھیاروں کی برآمدات پر تصّرُف ہے، لیکن اب تک ہتھیاروں کی ساٹھ ارب ڈالر کی سالانہ تجارت پر کنٹرول کرنے والا ایسا کوئی بین الاقوامی سمجھوتہ موجود نہیں تھا۔ اور اگرچہ اخبار کے بقول اس معاہدے کے نفاذ میں کُچھ کمزوریاں ہونگی۔ اس کے حامیوں کو یورپی یونین اور سلامتی کونسل جیسے اداروں سے مطالبہ کرنے کا حق ہوگا کہ وہ اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دے۔

اس معاہدے کا کسی ملک کے اندر ہتھیاروں کے استعمال پر کسی قسم کا عمل دخل نہیں ہوگا۔ لیکن، اس کی جو ملک توثیق کریں گے اُن پر یہ لازم ہوگا کہ وُہ قومی قواعد وضع کریں، تاکہ ایک تو روائتی ہتھیاروں اُن کے کل پُرزوں اور ان کے اجزا کی منتقلی پر کنٹرول رہے اور ہتھیاروں کے دلّالوں کو ضا بطے کے تحت لایا جائے۔ معاہدہ کا اطلاق جن ہتھیاروں پر ہوتا ہے اُن میں جنگی ٹینک، بکتر بند گاڑیاں، بھاری توپ خانے،جنگی طیّارے ہیلی کاپٹر، بحری جہاز، مزائیل اور لانچر اور چھوٹے اور ہلکے ہتھیار شامل ہیں۔


یہ طے کرنے کے لئے کہ آیا ہتھیاروں کی برآمد کی اجازت دی جائے یا نہیں، اخبار کہتا ہے کہ اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ کہیں یہ ہتھیار بین الاقوامی انسانی حقوق اور انسانیت دوستی کے قوانین کی خلاف ورزی کے لئے تو نہیں استعمال ہونگے۔ یا دہشت گردوں اور جرائم پیشہ جتھوں کے ہتّھے تو نہیں چڑھیں گے۔

’واشنگٹن ٹائمز‘ کی رپورٹ ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی کو یہ بات قبول ہے کہ طالبان کے لیڈر ملّا محمد عمر اگلے سال صدارتی انتخاب لڑیں۔

اخبار کہتا ہے کہ مسٹر کرزئی نے ایک جرمن اخبار کو انٹرویو میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت بعض شرائط کے تحت طالبان کو قطر میں انتخابی مہم کا دفتر قائم کرنے کی اجازت دے گی جن کے تحت سب سے پہلے طالبان کو القاعدہ کے ساتھ اپنے تعلقات مکمل طور پر توڑنے پڑیں گے، اور دوسرے اُنہیں دہشت گردی سے توبہ کرنی ہوگی۔

مسٹر کرزئی نے جرمن اخبار کو بتایا کہ افغان آئین سے محض غیر طالبان ہی استفادہ نہیں کریں گے، بلکہ طالبان افغانوں کو بھی اس کا فائدہ حاصل ہونا چاہئے۔

اخبار کہتا ہے کہ مُلّا عُمر کے بارے میں مسٹر کرزئی کی اس بات سے کہ وُہ بھی صدارتی امّیدوار ہو سکتے ہیں، افغان عوام کو یہ موقع ملے گا کہ وہ ان کےحق میں یا ان کے خلاف ووٹ دیں۔

موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے کےلئے صدر اوبامہ نے اسے قومی ایجنڈے میں دوبارہ شامل کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے، اس پر ’نیو یارک ٹائمز‘ کے ایک قاری نے لکھا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ اس سمت میں واقعتہً کوئی قدم اُٹھانا دشوار کام ہے۔ اور اب کی بار بھی حالات مُختلف نہیں ہونگے۔ سائینس اس کا بہترین جواز فراہم کرتی ہے کہ کاربن ڈائیکسائڈ اور دوسری گیسز کو جنہیں موسمیاتی تبدیلی کا ذمّہ دار ٹھیرایا گیا ہے، کنٹرول کرنے کے لئے قدم اُٹھایا جائے۔

لیکن، یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی کہ یہ قدم کب اور کس حد تک اُٹھانا چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ، سائینس اس بارے میں تمام شکوک رفع نہیں کر سکتی۔

موسمیاتی مسئلے سے نمٹنے میں ایک اور مشکل یہ ہوگی کہ عالمی سطح پر توانائی کے اتنے وسیع ڈھانچے کو بدلنا پڑے۔
XS
SM
MD
LG