واشنگٹن —
سنہ1991 میں آزادی کے حصول کے بعد، یوکرین کے دارالحکومت کئیف میں، حکومت مخالف مظاہرین اور پولیس کے درمیان بدترین جھڑپوں میں، ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے ایک ادارئے کے بقول، کم از کم 20 افراد ہلاک ہوئے ہیں، جس کے بعد سیکیورٹی فوجوں نے مظاہرین کے ٹھکانوں پر ہلّہ بول دیا۔ اُن کے جلتے ہوئے خیموں اور روکاوٹوں سے جو شعلے بلند ہوئے، وہ انٹرنیٹ کےنشریوں پر صاف دکھائی دے رہے تھے۔
اور اخبار کا خیال ہے کہ اگر اس سے پہلے روس کی ہم نوا وکٹر یانُو کو وِچ حکومت اور مغرب نواز حزب اختلاف کے مابین جلد مصالحت کا کوئی امکان تھا، تو وہ شائد ختم ہو گیا ہے۔
اخبار نے اس کے لئے صدر یانو کو وچ کو ذمہ دار ٹھیرایا ہے ۔ جنہوں نے پہلے یہ حامی بھری تھی کہ وہ حزب اختلاف کے ساتھ ایک نئے وزیر اعظم اور نئی کابینہ پر، جو دونوں فریقوں کے لئے قابل قبول ہو، مذاکرات کریں گے۔ لیکن، عام معافی پر ایک معاہدے کے بعد اس سے مکّر گئے تھے۔ پھر پارلیمنٹ میں صدر کی پارٹی کے ارکان نے حزب اختلاف کی آئینی اصلاحات کا بل پیش کرنے کوشش میں روڑے اٹکائے، جس میں صدر کے اختیارات کو محدود کرنا شامل تھا۔ اور اس پر حزب اختلاف کے جنگجؤوں کی طرف سے شدید ردّ عمل ہوا۔
اخبار کا خیال ہے کہ جواب میں حکومت کی طرف سے الٹی میٹم کی دہمکی اور پھر دنگہ پولیس سے حملہ کرانا حماقت کی بات تھی۔
اخبار کہتا ہے کہ روسی صدر ولادی میر پُوٹن کو غالباً خوشی ہوگی، جنہوں نے مسٹر یانو کووچ کو حزب اختلاف سے مصالحت نہ کرنے کے لئے اکسایا ہوگا۔ اس کے باوجود، اخبار کا خیال ہے کہ ایک سیاسی تصفیہ شائد اب بھی ممکن ہو، کیونکہ اس بُحران کا واحد حل یہی ہے۔
امریکی نائب صدر، جو بائیڈن کی طرف سے ایک فون کال کے بعد مسٹر یانو کووِچ نے حزب اختلاف کے لیڈروں سے پھر ملاقات کی ہے، حالات نے ثابت کر دیا ہے کہ سیاسی اور اقتصادی اصلاحات کے بغیر یوکرین پر حکومت کرنا ممکن نہیں۔ اور اگر انہوں نے حالات سے سمجھوتہ نہ کیا اور سیکیورٹی فوجیں ہٹانے سے انکار کیا تو پھر اخبار کا مغربی حکومتوں کو مشورہ ہے کہ وہ جن تعزیرات کی دہمکی دیتے آئے ہیں، اُنہیں نافذ کرنے کے لئے تیار رہیں۔
معروف تجزیہ کار جارج وِل نے امریکی امی گریشن قوانین میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ’ڈیٹرائیٹ نیوز‘ اخبار کے ایک کالم میں ری پبلکن ارکان کانگریس کے ان اصلاحات سے مُنہ موڑنے کے فیصلے کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ایسا لگ رہا ہے کہ امریکی کلچر میں ان کا اعتماد ڈگمگا رہا ہے، اور اُس سیاسی مشن میں بھی، جو ان کی نظر میں صرف ری پبلکن ہی سر انجام دے سکتے ہیں، اور امریکہ کی اقتصادی استعداد کو بحال کر سکتے ہیں جس کے بغیر امریکہ کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ اس وقت امریکہ میں جو تارکین وطن غیر قانونی طور پر مقیم ہیں، اُن میں سے35 فیصد وہ ہیں، جو کم از کم پندرہ سال سے موجود ہیں، 28 فیصد ایسے ہیں جن کا اس ملک میں قیام 10 سے 14 سال کے درمیان ہے، جب کہ جو لوگ پانچ سال سے کم مدت سے یہاں ہیں، ان کا تناسُب صرف 15 فیصد یا اس سے کم ہے۔ ان تارکین وطن میں سے 35فی صد ایسے ہیں جو مکانوں کے مالک بھی ہیں۔
کالم نگار کو ان لوگوں سے اتفاق ہے جو سرحدوں پر کنٹرول کو قومی حاکمیت اعلیٰ کا ایک اہم جُزو تصوُّر کرتے ہیں۔ لیکن، اس کے ساتھ ساتھ، وہ اس طرف بھی توجّہ دلاتے ہیں کہ ماضی قریب میں میکسکو سے نقل مکانی کرکے آنے والوں کی تعداد تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ البتہ، اس کے برعکس، سرحد پر گشت پر آنے والے اخراجات جو 1990ء کی دہائی میں چار گنا بڑھ گئے تھے، سنہ 2000ء کی دہائی میں تین گنا بڑھ گئے ہیں۔
بہت سے ری پبلکنوں کے اس اعتراض ہے کہ امی گریشن کا عمل امریکہ کی اُن معاشرتی پالیسیوں کے منافی ہے، جس کا مقصد ایسے افراد کی تعداد گھٹانا ہے، جو کم ہنرمند اور کم تعلیم یافتہ ہوں، اور جن کی وجہ سے مزدوری کی شرح گرجاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ بات صحیح ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے، اور جیسا کہ کانگریس کے بجٹ آفیس نے بھی کہا ہے، کم مزدوری میں ابتدا میں قلیل سی کمی کے بعد، فزوں تر اقتصادی نمو ممکن ہوتی ہے اور اس کی جزوی وجہ تارکین وطن کا ملک میں آنا ہے۔
’بالٹی مور سن‘ اخبار کہتا ہے کہ وہائٹ ہاؤس کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، کالج میں تعلیم کے دوران، ہر پانچ خواتین میں سے ایک کو جنسی ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
لیکن، ان میں سے تقریباً آدھے کیس ایسے ہیں جن کے نہ تو کالج کے ارباب اختیار کو اور نہ ہی پولیس کو اطلاع دی جاتی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق، اس زیادتی کا نشانہ بننے والی تقریباً بارہ فیصد باقاعدہ اس کی رپورٹ درج کرواتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہ کالج کی خواتیں خلاف ہونے والے اُن جرائم میں شامل ہے، جن کو کبھی درج نہیں کیا جاتا۔
اخبار کہتا ہے کہ 1990 ءکے بعد سے امریکی کانگریس نے ایک قانون منظور کیا ہے، جس کے تحت، تمام کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے لئے یہ لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے کیمپسوں میں ہونے والےجرائم کے اعدادوشمار جمع کریں اور انہیں شایع کریں۔لیکن، اخبار کہتا ہے کہ باوجودیکہ اب ایسے جرائم کے بارے میں معلومات کی اشاعت ہو رہی ہے لیکن جنسی زیادتیوں کے نشانہ بننے والی کئی لڑکیاں رپورٹ لکھوانے کے بدلے خاموش رہنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ اِس کی ایک وجہ اُس بدنامی کا خوف ہے جس کا اُن سے زیادتی کرنے والا کم اور وہ خود زیادہ شکار ہوتی ہیں۔
اور اخبار کا خیال ہے کہ اگر اس سے پہلے روس کی ہم نوا وکٹر یانُو کو وِچ حکومت اور مغرب نواز حزب اختلاف کے مابین جلد مصالحت کا کوئی امکان تھا، تو وہ شائد ختم ہو گیا ہے۔
اخبار نے اس کے لئے صدر یانو کو وچ کو ذمہ دار ٹھیرایا ہے ۔ جنہوں نے پہلے یہ حامی بھری تھی کہ وہ حزب اختلاف کے ساتھ ایک نئے وزیر اعظم اور نئی کابینہ پر، جو دونوں فریقوں کے لئے قابل قبول ہو، مذاکرات کریں گے۔ لیکن، عام معافی پر ایک معاہدے کے بعد اس سے مکّر گئے تھے۔ پھر پارلیمنٹ میں صدر کی پارٹی کے ارکان نے حزب اختلاف کی آئینی اصلاحات کا بل پیش کرنے کوشش میں روڑے اٹکائے، جس میں صدر کے اختیارات کو محدود کرنا شامل تھا۔ اور اس پر حزب اختلاف کے جنگجؤوں کی طرف سے شدید ردّ عمل ہوا۔
اخبار کا خیال ہے کہ جواب میں حکومت کی طرف سے الٹی میٹم کی دہمکی اور پھر دنگہ پولیس سے حملہ کرانا حماقت کی بات تھی۔
اخبار کہتا ہے کہ روسی صدر ولادی میر پُوٹن کو غالباً خوشی ہوگی، جنہوں نے مسٹر یانو کووچ کو حزب اختلاف سے مصالحت نہ کرنے کے لئے اکسایا ہوگا۔ اس کے باوجود، اخبار کا خیال ہے کہ ایک سیاسی تصفیہ شائد اب بھی ممکن ہو، کیونکہ اس بُحران کا واحد حل یہی ہے۔
امریکی نائب صدر، جو بائیڈن کی طرف سے ایک فون کال کے بعد مسٹر یانو کووِچ نے حزب اختلاف کے لیڈروں سے پھر ملاقات کی ہے، حالات نے ثابت کر دیا ہے کہ سیاسی اور اقتصادی اصلاحات کے بغیر یوکرین پر حکومت کرنا ممکن نہیں۔ اور اگر انہوں نے حالات سے سمجھوتہ نہ کیا اور سیکیورٹی فوجیں ہٹانے سے انکار کیا تو پھر اخبار کا مغربی حکومتوں کو مشورہ ہے کہ وہ جن تعزیرات کی دہمکی دیتے آئے ہیں، اُنہیں نافذ کرنے کے لئے تیار رہیں۔
معروف تجزیہ کار جارج وِل نے امریکی امی گریشن قوانین میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ’ڈیٹرائیٹ نیوز‘ اخبار کے ایک کالم میں ری پبلکن ارکان کانگریس کے ان اصلاحات سے مُنہ موڑنے کے فیصلے کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ایسا لگ رہا ہے کہ امریکی کلچر میں ان کا اعتماد ڈگمگا رہا ہے، اور اُس سیاسی مشن میں بھی، جو ان کی نظر میں صرف ری پبلکن ہی سر انجام دے سکتے ہیں، اور امریکہ کی اقتصادی استعداد کو بحال کر سکتے ہیں جس کے بغیر امریکہ کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ اس وقت امریکہ میں جو تارکین وطن غیر قانونی طور پر مقیم ہیں، اُن میں سے35 فیصد وہ ہیں، جو کم از کم پندرہ سال سے موجود ہیں، 28 فیصد ایسے ہیں جن کا اس ملک میں قیام 10 سے 14 سال کے درمیان ہے، جب کہ جو لوگ پانچ سال سے کم مدت سے یہاں ہیں، ان کا تناسُب صرف 15 فیصد یا اس سے کم ہے۔ ان تارکین وطن میں سے 35فی صد ایسے ہیں جو مکانوں کے مالک بھی ہیں۔
کالم نگار کو ان لوگوں سے اتفاق ہے جو سرحدوں پر کنٹرول کو قومی حاکمیت اعلیٰ کا ایک اہم جُزو تصوُّر کرتے ہیں۔ لیکن، اس کے ساتھ ساتھ، وہ اس طرف بھی توجّہ دلاتے ہیں کہ ماضی قریب میں میکسکو سے نقل مکانی کرکے آنے والوں کی تعداد تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ البتہ، اس کے برعکس، سرحد پر گشت پر آنے والے اخراجات جو 1990ء کی دہائی میں چار گنا بڑھ گئے تھے، سنہ 2000ء کی دہائی میں تین گنا بڑھ گئے ہیں۔
بہت سے ری پبلکنوں کے اس اعتراض ہے کہ امی گریشن کا عمل امریکہ کی اُن معاشرتی پالیسیوں کے منافی ہے، جس کا مقصد ایسے افراد کی تعداد گھٹانا ہے، جو کم ہنرمند اور کم تعلیم یافتہ ہوں، اور جن کی وجہ سے مزدوری کی شرح گرجاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ بات صحیح ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے، اور جیسا کہ کانگریس کے بجٹ آفیس نے بھی کہا ہے، کم مزدوری میں ابتدا میں قلیل سی کمی کے بعد، فزوں تر اقتصادی نمو ممکن ہوتی ہے اور اس کی جزوی وجہ تارکین وطن کا ملک میں آنا ہے۔
’بالٹی مور سن‘ اخبار کہتا ہے کہ وہائٹ ہاؤس کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، کالج میں تعلیم کے دوران، ہر پانچ خواتین میں سے ایک کو جنسی ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
لیکن، ان میں سے تقریباً آدھے کیس ایسے ہیں جن کے نہ تو کالج کے ارباب اختیار کو اور نہ ہی پولیس کو اطلاع دی جاتی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق، اس زیادتی کا نشانہ بننے والی تقریباً بارہ فیصد باقاعدہ اس کی رپورٹ درج کرواتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہ کالج کی خواتیں خلاف ہونے والے اُن جرائم میں شامل ہے، جن کو کبھی درج نہیں کیا جاتا۔
اخبار کہتا ہے کہ 1990 ءکے بعد سے امریکی کانگریس نے ایک قانون منظور کیا ہے، جس کے تحت، تمام کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے لئے یہ لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے کیمپسوں میں ہونے والےجرائم کے اعدادوشمار جمع کریں اور انہیں شایع کریں۔لیکن، اخبار کہتا ہے کہ باوجودیکہ اب ایسے جرائم کے بارے میں معلومات کی اشاعت ہو رہی ہے لیکن جنسی زیادتیوں کے نشانہ بننے والی کئی لڑکیاں رپورٹ لکھوانے کے بدلے خاموش رہنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ اِس کی ایک وجہ اُس بدنامی کا خوف ہے جس کا اُن سے زیادتی کرنے والا کم اور وہ خود زیادہ شکار ہوتی ہیں۔