اودھ کے فرماں روا ادب اور فنون لطیفہ کے بڑے سرپرست تھے ان کی سرپرستی کا ہی نتیجہ تھا کہ ہندوستان بھر کے تمام باکمال وہاں جمع ہو گئے تھے۔ اگر میر تقی میر جیسے شاعر نے لکھنﺅ کا رخ کیا تو مصحفی خواجہ حیدر علی آتش، امام بخش ناسخ، میر انیس اور میر دبیر نے بھی شاعری کے آسمان پر چار چاند لگائے۔ لیکن آخری فرماں روا واجد علی شاہ اختر خود شاعر تھے اور شعراءکی پذیرائی بھی کرتے تھے۔
ان کی پیدائش 30 جولائی 1822 کو اودھ کے شاہی خاندان میں ہوئی تھی۔ ان کا پورا نام ابو المنصور سکندر شاہ پادشاہ عادل قیصر زماں سلطان عالم مرزا محمد واجد علی شاہ اختر تھا۔ وہ صرف اردو کے شاعر ہی نہیں تھے بلکہ انہیں رقص و سرور کے رموز پر بھی کمال حاصل تھا۔ گانے، بجانے، ڈرامے، شاعری، راگ راگنی کے ماہر تھے۔ کتھک رقص کو انہوں نے از سر نو زندہ کیا تھا۔ رہس، جو گیا، جشن اور اس قسم کی کئی چیزوں کو انہوں نے نہ صرف زندگی دی تھی بلکہ ان کے ماہرین کو بھی انہوں نے لکھنﺅ میں جمع کیا تھا۔ انہیں یہ رموز استاد باسط خاں، پیارے خاں اور نصیر خاں نے سکھائے تھے۔ ان تمام چیزوں کی تربیت اور ارتقاءکے لئے انہوں نے لکھنﺅ میں عالیشان قیصر باغ بارہ دری بنوائی جو آج بھی قائم ہے۔ انہوں نے خود کئی نئے راگ اور راگنیوں کی ایجاد کی تھی۔ خاص طور پر انہوں نے
بابل مورا نیہر چھوٹو جائے
چار کہار میرا ڈولیا سجائے
مورا اپنا بیگانو چھوٹو جائے
آنگن تو پربت بھئیو اور ڈیری بھئی بدیش
جائے بابل گھر آپنو ں میں چلی پیا کے دیس
بابل مورا نیہر چھوٹو جائے
کو نئے سرے سے آراستہ کیا تھا۔ ہندوستان کا کوئی بھی فرماں روا ادب، تہذیب و ثقافت کا ایسا دلدادہ نہیں تھا جیسا کہ واجد علی شاہ اختر تھے۔ اتنا ہی نہیں انہوں نے تمام رموز پر الگ الگ کتابچے بھی لکھے تھے جن کی تعداد سو سے بھی زائد تھی۔ ان میں سے 50 کتابچوں کی ترتیب نامور محقق پروفیسر مسعود حسین رضوی ادیب نے کی تھی اور انہیں جمع کر کے شائع کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ انگریزوں کی چیرہ دستیوں کے سبب انہیں بہت ہی المناک حالات میں لکھنﺅ چھوڑنا پڑا اور کلکتہ کا رخ کیا۔ جبکہ ان کی اہلیہ بیگم حضرت محل رخصت ہو کر نیپال چلی گئی تھیں جہاں انہوں نے نہ صرف رہائش اختیار کی بلکہ ہندوستان کی جدو جہد آزادی کی قیادت بھی کی۔ ان کی اہلیہ حضرت محل بھی شاعرہ تھیں اور انہوں نے متعدد نظمیں لکھی تھیں۔ جس میں سے ایک نظم تو ان کی المناکی کی داستان بیان کرتی ہے جس میں انہوں نے لکھا تھا
حکومت جو اپنی تھی اب ہے پرائی
اجل کی طلب تھی اجل بھی نہ آئی
نہ تخت اور تختہ اسیری نہ شاہی
مقدر ہوئی ہے جہاں کی گدائی
لکھا ہوگا حضرت محل کی لحد پر
نصیبوں جلی تھی فلک کی ستائی
دراصل واجد علی شاہ کے والد امجد علی شاہ کے دور تک آتے آتے ایسٹ انڈیا کمپنی فوجی اور سیاسی حیثیت سے اودھ کے معاملات میں اتنا حاوی ہو چکی تھی کہ اب وہ محض یہ موقع تلاش کر رہی تھی کہ اس حکومت کو کس طرح سے قبضے میں لے لیا جائے۔ لیکن واجد علی شاہ کی تخت نشینی 1847کے فوراً ہی بعد ان کے خلاف بدنظمی، ہیجان، انتشار اور ان کی نا اہلی اور عیاشی کے ایسے ایسے الزامات تراش لئے گئے جس کا علاج ان کی معزولی کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ ان کی تخت نشینی کے کچھ ہی عرصہ بعد لارڈ ہارڈنگ نے نومبر 1847 میں متنبہ کر دیا تھا کہ اگر سلطنت کے حالات میں سدھا ر نہ ہوا تو کمپنی اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لے لے گی۔ دراصل یہ سلسلہ کی پہلی کڑی تھی۔ لیکن 1849 میں جب کرنل سلیمن کو ریزیڈنٹ بناکر لکھنﺅ بھیجا گیا تو اس کا اصل مقصد یہی تھا۔ بظاہر اس نے تین مہینے تک پوری ریاست کا دورہ کرنے کے بعد رعایا کی تباہ حالی او رکام کی سر کشی لاقانونیت او رقتل، لوٹ مار کی کیفیات رپورٹ کی شکل میں مرتب کی تھی اور یہی ان کی معزولی کا شاخسانہ بنی۔ جس کے باعث واجد علی شاہ کو اپنے صاحبزادے برجیس قدر کو 1857 میں تخت نشیں کر کے خود وہاں سے یہ کہتے ہوئے رخصت ہونا پڑا
درو دیوار پہ حسرت کی نظر کرتے ہیں
خوش رہو اہل وطن ہم توسفر کرتے ہیں
لیکن اپنے مختصر دور میں ہی واجد علی شاہ نے جس طرح سے فنون لطیفہ کی پرورش کی وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ اپنی جلا وطنی کے ہی دور میں 65 سال کی عمر میں یکم ستمبر 1887 کو کلکتہ کے مٹیا بر ج میں ان کا انتقال ہو گیا۔