شام کے سیاسی مستقبل سے متعلق بات چیت کے دوسرے دور کا آغاز ہفتہ کو ویانا میں ہو رہا ہے جس میں عالمی طاقتیں شریک ہو رہی ہیں۔
امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری جمعرات کو تین ملکی دورے پر روانہ ہو گئے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ شام کے سیاسی بحران اور شدت پسند گروپ داعش کے خطرے سے نمٹنے جیسے امور ان کے ایجنڈے میں سرفہرست ہوں گے۔
اکتوبر کے اواخر میں بات چیت کے پہلے دور کے مشترکہ اعلامیے میں 17 ملکوں، اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ شام میں بدامنی کے خاتمے کے لیے سفارتی کوششوں کو تیز کرنا بہت اہم ہے۔
اس میں اقوام متحدہ کی زیر قیادت امن عمل جس میں شام کی حکومت اور معتدل حزب مخالف کے مابین بات چیت اور ممکنہ جنگ بندی پر بھی اتفاق کیا گیا۔
لیکن اس کے باوجود بعض امور پر شدید اختلافات بھی پائے جاتے ہیں جن میں سے ایک صدر بشار الاسد کے مستقبل کا معاملہ ہے۔
ویانا میں بات چیت کے پہلے دور کے اختتام پر جان کیری کا کہنا تھا کہ امریکہ کا موقف یہی ہے کہ ایسا کوئی راستہ نہیں ہے کہ صدر اسد شام کو متحدہ رکھ سکیں اور حکومت کر سکیں۔
روس نے مذاکرات کے دوسرے دور کے لیے متعدد تجاویز دے رکھی ہیں۔ اس نے شام کی جنگ کے خاتمے کے لیے ایک مجوزہ منصوبہ پیش کیا تھا کہ جس میں 18 ماہ میں ایک نیا آئین تیار کرنے اور پھر 2017ء میں صدارتی انتخاب منعقد کرنے کا کہا گیا تھا۔
مغربی سفارتکاروں نے یہ اشارہ دیا ہے کہ ویانا مذاکرات میں روس کا منصوبہ مرکزی نقطہ نہیں ہوگا۔
شام کے حزب مخالف کے گروپوں کا کہنا تھا ہے کہ یہ منصوبہ ناقابل قبول ہے کیونکہ روس کا مقصد اسد کو اقتدار میں رکھنا ہے۔
صدر بشار الاسد کے ایک مخالف سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے رواں ہفتے ہی کہا تھا کہ شام کے صدر کو ہر صورت ہٹایا جانا چاہیے۔
"اگر بشار الاسد کی رخصتی پرامن انداز میں مکمل نہیں ہوتی تو پھر یہ فوجی طریقے سے مکمل کیا جائے گا۔"