حملوں سے متعلق انٹرنیٹ پر جاری کی جانے والی ویڈیوزمیں تباہ شدہ عمارتیں دکھائی دے رہی ہیں جب کہ زندہ بچ جانے والے افراد ملبہ ہٹا کر نعشیں نکال رہے ہیں۔
شام میں انسانی حقوق کے کارکنوں اور میڈیکل ذرائع کا کہناہے کہ ملک کے شمالی حصوں میں باغیوں پر سرکاری فورسز کے ہوائی حملوں میں کم ازکم 20 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں نے بتایا کہ ادلیب اور حلب کے صوبوں میں بدھ کی رات اور جمعرات کو صبح سویرے فضائی حملے کیے گئے جن میں باغیوں کے زیر قبضہ قصبہ مارت النعمان بھی شامل ہے۔
طبی ذرائع کا کہناہے کہ ہلاک ہونے والوں میں بچے بھی شامل ہیں۔
حملوں سے متعلق انٹرنیٹ پر جاری کی جانے والی ویڈیوزمیں تباہ شدہ عمارتیں دکھائی دے رہی ہیں جب کہ زندہ بچ جانے والے افراد ملبہ ہٹا کر نعشیں نکال رہے ہیں۔
میڈیا پر عائد پابندیوں کے باعث سرگرم کارکنوں کی اطلاعات اور انٹرنیٹ ویڈیوز کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہے۔
بین الاقوامی سفارت کار لخدر ابراہیمی نے جمعرات کو کہا ہےکہ عارضی فائربندی جنگ سے متاثر ملک شام میں ایک حقیقی معاہدے کی بنیاد بن سکتا ہے۔
ابراہیمی فائربندی کی اپنی کوششوں کو آگے بڑھانے کے لیے آئندہ چندروز میں دمشق کا دورہ کرنے والے ہیں۔
اس سے قبل اپریل میں فائربندی کا معاہدہ چندہی روز کے بعد ٹوٹ گیا تھا جس کا الزام دونوں فریقوں نے ایک دوسرے پر عائد کیا تھا۔ معاہدہ ٹوٹنے کے بعد اس وقت شام کے لیے اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے سفارت کار کوفی عنان نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
شام کے سرکاری خبررساں ادارے سانا کی جمعرات کی ایک رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ دہشت گردوں نے ایک گیس پائپ لائن اور ایک آئل پائپ لائن کو دھماکے سے اڑادیا۔
رپورٹ کے مطابق پائپ لائنوں کو تباہ کرنے کے یہ واقعات دیرالزور کے علاقے میں ہوئے ۔
سانا نے وزارت تیل کے ایک عہدے دار کے حوالے سے کہا ہے کہ پائپ لائنوں کے تباہ ہونے والے حصوں کی مرمت کا کام جلد شروع کردیا جائے گا۔
شام کی حکومت صدر بشارالاسد کے خلاف لڑنے والوں کو دہشت گرد کا نام دیتی ہے۔
ملک میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورت حال، سرکاری فورسز اور باغیوں کے درمیان لڑائیوں اور آبادیوں پر گولہ باری سے اپنی جانیں بچا کر فرار ہونے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔
اس وقت شام کے پڑوسی ممالک میں پناہ گزین بڑی تعداد میں موجود ہیں اور پناہ گزینوں کے عالمی ادارے کا کہناہے کہ مستقبل میں ان کی تعداد میں تیزی سے اضافہ متوقع ہے۔
پناہ گزینوں کے عالمی ادارے کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق شام کی سرحد عبور کرکے ترکی میں پناہ لینے والے افراد کی تعداد ایک لاکھ سے بڑھ چکی ہے۔
جب کہ لبنان میں 99 ہزار، اردن میں 90 ہزار اور عراق میں58 ہزار کے لگ بھگ شامی پناہ گزین موجود ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں نے بتایا کہ ادلیب اور حلب کے صوبوں میں بدھ کی رات اور جمعرات کو صبح سویرے فضائی حملے کیے گئے جن میں باغیوں کے زیر قبضہ قصبہ مارت النعمان بھی شامل ہے۔
طبی ذرائع کا کہناہے کہ ہلاک ہونے والوں میں بچے بھی شامل ہیں۔
حملوں سے متعلق انٹرنیٹ پر جاری کی جانے والی ویڈیوزمیں تباہ شدہ عمارتیں دکھائی دے رہی ہیں جب کہ زندہ بچ جانے والے افراد ملبہ ہٹا کر نعشیں نکال رہے ہیں۔
میڈیا پر عائد پابندیوں کے باعث سرگرم کارکنوں کی اطلاعات اور انٹرنیٹ ویڈیوز کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہے۔
بین الاقوامی سفارت کار لخدر ابراہیمی نے جمعرات کو کہا ہےکہ عارضی فائربندی جنگ سے متاثر ملک شام میں ایک حقیقی معاہدے کی بنیاد بن سکتا ہے۔
ابراہیمی فائربندی کی اپنی کوششوں کو آگے بڑھانے کے لیے آئندہ چندروز میں دمشق کا دورہ کرنے والے ہیں۔
اس سے قبل اپریل میں فائربندی کا معاہدہ چندہی روز کے بعد ٹوٹ گیا تھا جس کا الزام دونوں فریقوں نے ایک دوسرے پر عائد کیا تھا۔ معاہدہ ٹوٹنے کے بعد اس وقت شام کے لیے اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے سفارت کار کوفی عنان نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
شام کے سرکاری خبررساں ادارے سانا کی جمعرات کی ایک رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ دہشت گردوں نے ایک گیس پائپ لائن اور ایک آئل پائپ لائن کو دھماکے سے اڑادیا۔
رپورٹ کے مطابق پائپ لائنوں کو تباہ کرنے کے یہ واقعات دیرالزور کے علاقے میں ہوئے ۔
سانا نے وزارت تیل کے ایک عہدے دار کے حوالے سے کہا ہے کہ پائپ لائنوں کے تباہ ہونے والے حصوں کی مرمت کا کام جلد شروع کردیا جائے گا۔
شام کی حکومت صدر بشارالاسد کے خلاف لڑنے والوں کو دہشت گرد کا نام دیتی ہے۔
ملک میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورت حال، سرکاری فورسز اور باغیوں کے درمیان لڑائیوں اور آبادیوں پر گولہ باری سے اپنی جانیں بچا کر فرار ہونے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔
اس وقت شام کے پڑوسی ممالک میں پناہ گزین بڑی تعداد میں موجود ہیں اور پناہ گزینوں کے عالمی ادارے کا کہناہے کہ مستقبل میں ان کی تعداد میں تیزی سے اضافہ متوقع ہے۔
پناہ گزینوں کے عالمی ادارے کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق شام کی سرحد عبور کرکے ترکی میں پناہ لینے والے افراد کی تعداد ایک لاکھ سے بڑھ چکی ہے۔
جب کہ لبنان میں 99 ہزار، اردن میں 90 ہزار اور عراق میں58 ہزار کے لگ بھگ شامی پناہ گزین موجود ہیں۔