21 فروری 2016 کا پروگرام ’ میری کہانی ‘۔۔ میزبان شہناز عزیز
Your browser doesn’t support HTML5
ایک سفاک اور بزدلانہ حملے سے جنم لینے والی لازوال حوصلے اور شجاعت کی کہانیاں
باچا خان یونیورسٹی پرجب طالبان نے حملہ کیا تو پروفیسرحامد حسین نے اپنے شاگردوں کوکمرے میں ہی رہنے کا حکم دیا۔ان کے طالبعلموں نے بتایا کہ انہوں نے کیسے طالبان کو فائرنگ کرکے مصروف رکھا جس کی وجہ سے انہیں جان بچانے کے لیے وقت ملا۔ایک طالب علم نے بتایا کہ جیسے ہی پہلی گولی چلنے کی آواز آئی تو حامد حسین نے اسے کمرے سے باہر نکلنے سے منع کیا۔طالبعلم کے مطابق اس نے حامد حسین کو گولی لگتے ہوئے اور دو دہشت گردوں کو فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا۔
ان کے بھائ سجاد حسین نے مجھ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ 1982 میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول صوابی سے حاصل کی۔ گریجویشن گورنمنٹ ڈگری کالج صوابی سے کیا اور بعد ازاں ایم ایس سی سیدو شریف کالج سے کرنے کے بعد انگلینڈ سے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کر لی۔ جنوری 2013 میں باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں بحیثیت پروفیسر تعینات ہو گئے اور پورے تین سال بعد اسی ادارے میں اپنی جان شاگردوں کو بچاتے ہوئے قربان کر دی ۔۔ پروفیسر ڈاکٹر حامد حسین کاتین سالہ بیٹا حاشر حسین اور ایک سالہ بچی حریم حسین اب ہمیشہ انہیں ڈھونڈتے رہیں گے۔
اسی پروگرام میں آپ کہانی سنیں گے ساجد حسین اور کامران کی اور ان بچوں کی جو حملے میں بال بال بچ گئے ۔