شاہ رخ خان، دپیکا پڈکون اور روہت شیٹھی ۔۔ کہاں کامیاب ۔۔۔ کہاں ناکام ۔۔؟
کراچی —
بہت پرانا فقرہ ہے۔۔”تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آگیا۔۔“جی ہاں، جس فلم کی ہر جگہ زبردست پروموشن دیکھ دیکھ کر تقریباً ڈیڑھ پونے دوماہ سے فلم بین انتظار کررہے تھے وہ آخر کار ریلیز ہو ہی گئی۔
درست پہچانا آپ نے۔ بات ہورہی ہے شاہ رخ خان اور دپیکا پدکون کی فلم ” چنائی ایکسپریس “ کی۔ اس فلم نے دو وجوہات کے سبب ریلیز سے پہلے ہی نام کما لیا تھا۔ ایک وجہ تھی میگا ہٹ فلم ”اوم شانتی اوم“ کی ریلیز کے چھ سال بعد شاہ رخ خان اور دپیکا پڈکون کا ایک ساتھ کام کرنا جبکہ دوسری وجہ شہرت تھی فلم کے ڈائریکٹر روہت شیٹھی جن کے کریڈٹ پر ابھی تک ایک بھی ناکام فلم نہیں۔
فلم سے متعلق بھارت کے سب سے بڑے اخبار ”ٹائمز آف انڈیا“ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ”چنائی ایکسپریس“ پہلی فلم ہے جسے ملک و بیرون ملک تقریباً 4000اسکرینز پر ایک ساتھ ریلیز کیا گیا۔ اس فلم پر اسی کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں۔
کہانی کی بات کریں تو ”چنائی ایکسپریس “ لو اسٹوری پر مبنی ہے۔ راہول یعنی شاہ رخ خان بڑی عمر کو پہنچنے کے باوجود اپنے دادا اور دادی کے پیار کی وجہ سے شادی نہیں کرپایا تھا۔ اس کے والدین کی بے وقت موت کے سبب دادا اور دادی نے ہی اسے پال پوس کر بڑا کیا تھا۔۔ لیکن پھر اچانک ایک دن اس کے دادا کی موت ہو جاتی ہے۔ راہول اپنے دادا کی خواہش کے مطابق ان کی راکھ کو بہانے کے لئے جنوبی بھارت جانے کے لئے چنائی ایکسپریس میں سوار ہوتا ہے۔
اتفاق سے اسی ٹرین کے ذریعے فلم کی ہیروئن مینا (دپیکا پڈکون ) بھی اپنے گاؤں جارہی ہے ۔ شاہ رخ اور دپیکا کی ملاقات ہوتی ہے اور اسی دوران حالات کچھ ایسا موڑ لیتے ہیں کہ شاہ رخ کو دپیکا کے گاوٴں جانا پڑجاتا ہے۔ گاؤں میں مینا کے والد کا طُوطی بولتی ہے۔ گاؤں والے ان کے ایک اشارے پر مرنے اور مارنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔ بیٹی ان کی کمزوری ہے۔
وہ اپنی بیٹی کی شادی قریبی گاؤں میں رہنے والے ایک نوجوان سے کرنا چاہتے ہیں لیکن اسی دوران راہول اور مینا میں محبت ہو جاتی ہے۔ اس کے باوجود کہ ان دونوں کی زبان، رہن سہن یہاں تک کہ رسم و رواج تک جدا ہیں لیکن وہ ہار ماننا نہیں چاہتے۔ آگے کیا ہوتا ہے۔۔۔ یہ آپ کو فلم دیکھ کر ہی پتا چلے گا۔
فلم میں شاہ رخ خان کے کچھ زبردست اور منفرد سینز موجود ہیں لیکن راہول کا کردار ان کی اب تک فلموں میں ادا کئے گئے ہیرو کے کردار سے زرا سا بھی مختلف نہیں۔ وہ ”دل والے دلہنیا لے جائیں گے “ سے لیکر ”جب تک ہے جاں“ تک درجنوں مرتبہ ایسے ہی رولز کرچکے ہیں البتہ دپیکا نے اپنے کردار کے ساتھ خوب انصاف کیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق رو ہت شیٹھی کی ڈائریکشن اپنی پچھلی فلموں کے مقابلے میں کچھ کمزور ہے۔ انہوں نے اپنی پرانی فلموں کے مصالحے کو ہی اس فلم میں بھی استعمال کیا ہے ۔
فلم کے ایک گانے ”کشمیر میں تو کنیا کماری‘‘ کی پکچرائزیشن پر اتنا پیسہ خرچ کیا گیا ہے کہ اس میں کم خرچ کی کئی فلمیں بن سکتی تھیں۔
فلم کی سب سے خاص بات اس کی سب سے خوب صورت لوکیشنز ہیں جو اس سے پہلے کسی اور فلم میں نظر نہیں آتیں۔ پہلی مرتبہ کسی ہندی فلم میں ساؤتھ انڈیا کی اتنی اچھی لوکیشنز پیش کی گئی ہیں۔