گانے کے پس منظر نے بھی خوب کمال کیا ہے ۔’ شٹل کاک ‘ ٹائپ پشاوری یا افغانی برقع ۔۔۔اس پر ڈاکٹر کا نام ”خانی“اور بیچ بیچ میں نارمل لہجے کی اردو کا تڑکا۔۔۔سب ملاکر کمال کرگئے ہیں۔
کراچی میں کوئٹہ اور پشاور کے قہوہ خانوں کی طرز پربنی چائے کی دکانوں میں چینک اور چھوٹی چھوٹی پیالیاں ٹرے میں رکھ کرچائے پیش کرنے والے پشتون لڑکے آپ نے کبھی نہ کبھی ضرور دیکھے ہوئے گے۔ ان کامخصوص لہجہ اور آدھی ادھوری اردو ان کی سادہ مزاجی اور سچائی کا ایسا روپ ہے جو کسی سے ڈھکا چھیا نہیں۔ ایک لمحے کے لئے سوچئے اگر انہی میں سے کوئی لڑکا اپنے خاص لہجے میں کسی ”ڈاکٹر خانی“ سے کچھ اس طرح کا گانا گاتے ہوئے اظہار محبت کرے ۔۔تو کیسا لگے گا۔۔:
”تو پشاور کی رانی،
ہم’ کوئٹے ‘کا راجہ،
آجا رانی دل ملا لے ،
یہ کہتا شیر خان ہے۔۔“
یقینا یہ خیال ہی ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیرنے کے لئے کافی ہے۔۔۔ دراصل یہ پرلطف تصور ابھرتے ہوئے سنگر احمد صدیق نے اپنے گانے ”شیر خان“ میں اپنایا ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے سپر ہٹ ہوگیا ہے۔ ۔۔وہ بھی ان دنوں میں جب پاکستان میں ویڈیو شیئرنگ ویب سائٹ ’یو ٹیوب ‘پر پابندی لگی ہوئی ہے۔ ۔۔پھر یہ گانا ہٹ کیسے ہوا؟۔۔۔اس کے جواب میں احمد صدیق نے” ٹری بیون“ اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا :
’میں نے’شیر خان‘ کو ”ویمیو“پر اپ لوڈ کیا اور’ فیس بک ‘پر ریلیز کر دیا۔ اس کا جو رسپانس آیا وہ بہت شاندار تھا۔ ند دنوں میں ہی چالیس ہزار سے زیادہ لوگوں نے اسے پسند کیاجبکہ اب یہ تعداد کئی گنابڑھ گئی ہے ۔یہ گانا میرے مشاہدے کا نتیجہ ہے۔ میرا تعلق کراچی سے ہے جہاں تقریباًہر گلی محلے میں کوئٹہ اور پشاور طرز کے چائے کے ہوٹل موجود ہیں۔ میں اکثر ان ہوٹلوں میں چائے پینے جاتا ہوں اور وہیں سے گانے کا مرکزی خیال میر ے ذہن میں آیا‘۔
’شیر خان‘ کے بہت کم وقت میں ہٹ ہوجانے کی وجوہات پر نظر ڈالیں تو سر فہرست گانے کی منفرد دھن اور شاعری ہے۔ گانا ہے تو اردو کا لیکن اسے مخصوص ’پشتون‘ لہجے میں گایا گیا ہے ۔ یہ اس کی سب سے بڑی انفرادیت ہے۔ پھر اس میں پشتون کلچر میں مروج روایتی الفاظ جن میں ”لکا“۔۔،” وے“،۔۔۔ ”واللہ“،۔۔” ٹی ٹی خان“۔۔۔” بارود خان۔۔“۔۔”رے۔۔“وغیرہ وغیرہ شامل ہیں، وہ گانے کا ایک نیا روپ دے رہے ہیں۔
گانے کے پس منظر نے بھی خوب کمال کیا ہے ۔’ شٹل کاک ‘ ٹائپ پشاوری یا افغانی برقع ۔۔ ۔ اس پر ڈاکٹر کا نام ”خانی“اور بیچ بیچ میں نارمل لہجے کی اردو کا تڑکا۔۔۔سب ملاکر کمال کرگئے ہیں۔
اس فاسٹ ٹریک کی شاعری احمد صدیق کے مطابق نوے فیصد خود انہوں نے کی ہے، لیکن جہاں کی شاعرانہ مہارت کا اختتام ہوا، وہاں انہیں مشہور شاعر صابر ظفر کی راہنمائی حاصل ہو گئی۔ گانے کی ویڈیو پروڈکشن فیاض احمد کی اور آڈیو پروڈکشن مبشر عمدانی کی ہے۔۔
مجموعی طور پر اس گانے میں مقامی ثقافت کا رنگ سب سے نمایاں ہے اور یہ انداز ۔۔۔ کہیں باہر سے سرحد عبور کرکے نہیں آیا بلکہ اس نے مقامی متنوع ثقافت میں ہی جنم لیا ہے۔
”تو پشاور کی رانی،
ہم’ کوئٹے ‘کا راجہ،
آجا رانی دل ملا لے ،
یہ کہتا شیر خان ہے۔۔“
یقینا یہ خیال ہی ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیرنے کے لئے کافی ہے۔۔۔ دراصل یہ پرلطف تصور ابھرتے ہوئے سنگر احمد صدیق نے اپنے گانے ”شیر خان“ میں اپنایا ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے سپر ہٹ ہوگیا ہے۔ ۔۔وہ بھی ان دنوں میں جب پاکستان میں ویڈیو شیئرنگ ویب سائٹ ’یو ٹیوب ‘پر پابندی لگی ہوئی ہے۔ ۔۔پھر یہ گانا ہٹ کیسے ہوا؟۔۔۔اس کے جواب میں احمد صدیق نے” ٹری بیون“ اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا :
’میں نے’شیر خان‘ کو ”ویمیو“پر اپ لوڈ کیا اور’ فیس بک ‘پر ریلیز کر دیا۔ اس کا جو رسپانس آیا وہ بہت شاندار تھا۔ ند دنوں میں ہی چالیس ہزار سے زیادہ لوگوں نے اسے پسند کیاجبکہ اب یہ تعداد کئی گنابڑھ گئی ہے ۔یہ گانا میرے مشاہدے کا نتیجہ ہے۔ میرا تعلق کراچی سے ہے جہاں تقریباًہر گلی محلے میں کوئٹہ اور پشاور طرز کے چائے کے ہوٹل موجود ہیں۔ میں اکثر ان ہوٹلوں میں چائے پینے جاتا ہوں اور وہیں سے گانے کا مرکزی خیال میر ے ذہن میں آیا‘۔
’شیر خان‘ کے بہت کم وقت میں ہٹ ہوجانے کی وجوہات پر نظر ڈالیں تو سر فہرست گانے کی منفرد دھن اور شاعری ہے۔ گانا ہے تو اردو کا لیکن اسے مخصوص ’پشتون‘ لہجے میں گایا گیا ہے ۔ یہ اس کی سب سے بڑی انفرادیت ہے۔ پھر اس میں پشتون کلچر میں مروج روایتی الفاظ جن میں ”لکا“۔۔،” وے“،۔۔۔ ”واللہ“،۔۔” ٹی ٹی خان“۔۔۔” بارود خان۔۔“۔۔”رے۔۔“وغیرہ وغیرہ شامل ہیں، وہ گانے کا ایک نیا روپ دے رہے ہیں۔
گانے کے پس منظر نے بھی خوب کمال کیا ہے ۔’ شٹل کاک ‘ ٹائپ پشاوری یا افغانی برقع ۔۔ ۔ اس پر ڈاکٹر کا نام ”خانی“اور بیچ بیچ میں نارمل لہجے کی اردو کا تڑکا۔۔۔سب ملاکر کمال کرگئے ہیں۔
اس فاسٹ ٹریک کی شاعری احمد صدیق کے مطابق نوے فیصد خود انہوں نے کی ہے، لیکن جہاں کی شاعرانہ مہارت کا اختتام ہوا، وہاں انہیں مشہور شاعر صابر ظفر کی راہنمائی حاصل ہو گئی۔ گانے کی ویڈیو پروڈکشن فیاض احمد کی اور آڈیو پروڈکشن مبشر عمدانی کی ہے۔۔
مجموعی طور پر اس گانے میں مقامی ثقافت کا رنگ سب سے نمایاں ہے اور یہ انداز ۔۔۔ کہیں باہر سے سرحد عبور کرکے نہیں آیا بلکہ اس نے مقامی متنوع ثقافت میں ہی جنم لیا ہے۔