لاہور کے علاقے مغل پورہ سے سنگھ پورہ سبزی منڈی کو جانے والی سڑک سے گزرتے وقت ریلوے فلیٹس کے سامنے ایک سُرنگ نما طویل گلی دکھائی دیتی ہے جو علی مردان خان کے مقبرے کو جاتی ہے۔
اس مقبرے کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ یہ مقبرہ علی مردان خان نے اپنی زندگی میں ہی بنوا دیا تھا۔
علی مردان خان کا مقبرہ تین منزلوں پر مشتمل ہے۔
لاجوردی، بسنتی اور کانسی کار کام کے نشان اب بھی یہاں باقی ہیں۔
مقبرے کے باغ کے احاطے میں بڑھی ہوئی گھاس اور سناٹا یہاں آنے والوں کو جلد ہی رخصت ہونے کا خیال دلاتا ہے۔
مقبرے کی تینوں منزلوں کو بڑی بڑی سلوں سے مزین کیا گیا تھا جو سکھ دورِ حکومت میں اکھاڑ لی گئیں تھیں اور اب یہاں ان کا نشان تک باقی نہیں ہے۔
علی مردان خان اسی مقبرے کے تہہ خانے میں دفن ہیں۔
اب یہ مقبرہ ویران ہے اور اس کے در و دیوار خستہ حال ہو چکے ہیں۔
یہ مقبرہ عام عوام کے لیے بند ہے اور محکمہ آثارِ قدیمہ کی تحویل میں ہے۔
محکمہ آثارِ قدیمہ کے مطابق سالانہ بنیادوں پر عمارت کی مرمت حسبِ ضرورت ہوتی رہتی ہے۔
تاریخی حوالہ جات بتاتے ہیں کہ علی مردان خان نے مُغل بادشاہ شاہ جہاں کے دور میں بے شمار یادگار عمارتیں اور باغات بنوائے تھے۔
مقبرے کی بالائی منزل سے گُنبد کا قریبی نظارہ ملتا ہے۔
مقبرے کی عمارت میں چاروں جانب بنے محرابی دروازے اب جالی لگا کر بند کر دیے گئے ہیں۔
علی مردان خان نے باذوق ماہرِ تعمیر ہونے کی حیثیت سے نولکھا باغ، شالامار باغ اور قلعہ دہلی سمیت نہر ہنسلی مادھو پور کھدوا کر شالامار باغ کو سیراب کرانے جیسے اہم امور سر انجام دیے۔