بے چینی، تجسس اور گھبراہٹ اُس وقت عروج پر پہنچ گئی جب میں امریکہ کے ہوائی اڈے پر مختلف رنگوں کے پاسپورٹ ہاتھ میں لیئے سینکڑوں افراد کے ساتھ قطار میں کھڑا تھا
نصف کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد میر ے دوست نے میرے تعارف کا سلسلہ یہ کہہ کر دوبارہ شروع کر دیا کہ عبدل اگلے ہفتہ امریکہ جا رہا ہے۔ اگلے ہی لمحے فرنٹ سیٹ پر بیٹھے رشتہ دارتیزی سےمیری طرف مڑے اور نہ صرف گرمجوشی سے ہاتھ ملاتے ہوئے مبارکباد دی، بلکہ گفتگو کا سلسلہ بھی شروع کر دیا جس کا محور امریکہ ہی تھا۔
سکیننگ مشین سمیت تفصیل اس قدر یقین سے بتاتے تھے جیسے اسی ہفتے امریکہ سے واپس آئے ہوں اورمجھ سے ویزہ کے حصول کا طریقہ دراصل میرے امتحان کے طور پر پوچھ رہے ہیں۔ ان سب دوستوں سے جب میں نے پوچھا کہ آپ امریکہ گئے ہیں تو سب کا ایک ہی جواب ہوتا۔ نہیں !
بے چینی، تجسس اور گھبراہٹ اُس وقت عروج پر پہنچ گئی جب میں امریکہ کے ہوائی اڈے پر مختلف رنگوں کے پاسپورٹ ہاتھ میں لیئے سینکڑوں افراد کے ساتھ قطار میں کھڑا تھا۔ میری نظریں سبز رنگ کے پاسپورٹ کے حامل افراد کی تلاش میں تھی جو متوقع طور پرمتعصبا نہ شناخت پریڈ میں میرے ساتھی ہو سکتے تھے۔
میرے چہرے پر داڑھی نے اور بھی خیالات کو جنم دے رکھا تھا، شائد داڑھی کی وجہ سے زیادہ مشکوک نظر سے دیکھا جائے۔
امیگرایشن ڈیسک کی طرف بڑھتا ہر قدم میرے دل کی دھڑکن میں بھی اضافہ کر رہا تھا۔
امیگریشن آفیسر نے محض چند منٹ کی ضروری کاروائی کے بعد مسکراتے ہوئے امریکہ آمد پر خوش آمدید کہا.
میں اس کی طرف اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے یہ کچھ بھول گیا ہو؟
لیکن نہ کسی کی داڑھی پر غور کیا گیا اور نہ کسی سے علاقائی بنیادوں پر مختلف انداز اپنایا ؟
عبدل کا امریکہ