افغانستان کا بحران اور پراکسی جنگ کے منڈلاتے بادل

  • شہناز نفيس
ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق،افغانستان میں موجود امریکی فورسز نے گذشتہ دنوں لطیف محسود کو افغان حکام کی تحویل سے اُس وقت اپنی حراست میں لے لیا جب ایک قافلے کی شکل میں اُنھیں کابل لے جایا جا رہا تھا
امریکی اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ اور ’کرسچن سائنس مانیٹر‘ نے اپنی حالیہ رپورٹوں میں کہا ہے کہ افغانستان میں صدر کرزئی کی حکومت پاکستانی طالب، لطیف محسود کو ’پراکسی‘ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے، پاکستانی طالبان کو پاکستان کی فوج کے خلاف استعمال کرنا چاہتی تھی۔

اخبار کے مطابق، افغانستان میں موجود امریکی فورسز نے گذشتہ دنوں لطیف محسود کو افغان حکام کی تحویل سے اُس وقت اپنی حراست میں لیا جب ایک قافلے کی شکل میں اُنھیں کابل لے جایا جا رہا تھا۔

شائع شدہ رپورٹ کے مطابق، صدر کرزئی کے ترجمان ایمل سیفی نے لطیف محسود کے ساتھ افغانستان کی خفیہ ایجنسی ’این ڈی ایس‘ کے روابط کی تصدیق کی ہے۔ تاہم، ان کا کہنا ہے کہ لطیف محسود کے ساتھ اُس رابطے کا مقصد، بقول اُن کے، طالبان کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو تیز کرنا تھا۔

اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ لکھتا ہے کہ ایک افغان اہل کار نے نام نہ بتانے کی شرط پر اخبار کو بتایا ہے کہ اِن روابط سے افغانستان پاکستان کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ پاکستان جو کچھ، بقول اُن کے، افغانستان میں کر رہا ہے، افغانستان بھی وہی کچھ پاکستان میں کرسکتا ہے۔
افغانستان کےدارالحکومت کابل سے ایک تجزیہ کار، زبیر بابرخیل نے ’وائس آف امریکہ‘ کی اردو سروس سے ایک انٹرویو میں، افغان حکومت کے مؤقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی حکومت اور اس کی خفیہ ایجنسی، بقول اُن کے، اس قابل نہیں ہے کہ وہ کسی اور ملک کے خلاف پراکسی جنگ شروع کرسکے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ایسے میں جب افغانستان اندرونی حالات پر قابو نہیں پا سکتا اور اس کی سکیورٹی فورسز کو خود تربیت کی ضرورت ہے، وہ پاکستان کے خلاف طالبان کی کس طرح تربیت کر سکتا ہے۔
’گلوبل انٹیلی جنس‘ ایک ادارے
Stratfor
سے منسلک، کامران بخاری نے زبیر بابر خیل سے اتفاق نہ کرتے ہوئے کہا کہ پراکسی جنگ کا آغاز ایک فرد سے بھی کیا جاسکتا ہے اور یہ کہ اس رپورٹ میں، بقول اُن کے، کسی حد تک حقیقت ضرورت ہے۔

کامران بخاری کا کہنا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ افغانستان اپنے لیے پراکسی پیدا کر رہا ہو۔ اُن کے مطابق، یہ دعویٰ کرنا غلط ہوگا کہ اس میں صدر کرزئی کی حکومت کا ہاتھ ہے۔ تاہم، اُن کی حکومت کا کوئی فرد اس میں شامل ہو سکتا ہے۔

پاکستان سے دفاعی تجزیہ کار، ریٹائرڈ برگیڈیئر محمد سعد نے امریکی اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ اور ’کرسچن سائنس مانیٹر‘ کی رپورٹوں میں پراکسی جنگ سے متعلق نئے انکشافات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ، بقول اُن کے، اس سے پاکستان میں پائے جانے والے افغانستان مخالف تاثرات کو تقویت ملے گی۔

برگیڈیئر سعد مزید کہتے ہیں کہ اپنے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے جو ملک بھی پراکسی جنگ کا سہارا لیتا ہے، آخر میں نقصان اسی ملک کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اُن کا تجزیہ تھا کہ یہ ایک نقصاندہ لائحہ عمل ہے جو کبھی کامیاب نہیں ہوا اور ہمیشہ نقصاندہ ثابت ہوا ہے۔

افغان تجزیہ کار، زبیر بابر خیل کی نظر میں اگر افغانستان کے کسی حلقےمیں اپنے حواری پیدا کرنے کو خواہش موجود ہے تو، بقول اُن کے، ’اُن کا مقصد ہمسایہ ممالک کی پراکسیز کا مقابلہ کرنا ہوسکتا ہے‘۔

یاد رہے کہ پاکستان اپنے اِس مؤقف کا اعادہ کرتا رہا ہے کہ وہ ایک پُرامن افغانستان کا خواہشمند ہے اور یہ کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ خود افغان عوام کو کرنا ہے۔ اپنے تازہ ترین بیانات میں وزیر اعظم نواز شریف نے بھی اِسی مؤقف کو دہرایا ہے۔


کامران بخاری کا کہنا تھا کہ افغانستان کو پراکسی جنگ کی پالیسی اپنانے کی بجائے، یہ سبق سیکھنا چاہیئے کہ جو لوگ دوسرے ملکوں میں مداخلت کرنے کے لیے پراکسیز کی مدد لیتے ہیں وہی پراکسیز مستقبل میں اسی ملک کے خلاف بغاوت کرتی ہیں۔

برگیڈیئر محمد سعد کہتے ہیں کہ پاکستان کی موجودہ حکومت، بھارت اور افغانستان سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات استوار کرنا چاہتی ہے، اور بقول اُن کے، پراکسی کی پالیسی سے اجتناب چاہتی ہے۔ اُن کے مطابق، وزیر اعظم نواز شریف کو نئی پالیسیاں وضع کرنے اور اُن پر عمل درآمد کروانے میں مشکلات کا سامنا ضروری ہے، تاہم، اُن کے تجزئے کے مطابق آنے والے چند ہفتوں میں ملک کی بہت سی پالیسیوں میں تبدیلی دیکھنے میں آسکتی ہے۔

امریکی اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ اور ’کرسچن سائنس مانیٹر‘ میں یہ رپورٹ کہ افغانستان بھی ایسی پراکسیز پیدا کرنا چاہتا ہے جو پاکستان سمیت دیگر ملکوں کی مبینہ پراکسیز کا مقابلہ کر سکے۔ ایسے وقت میں چھپی ہے جب لندن میں افغان صدر حامد کرزئی اور وزیر اعظم نواز شریف کی ملاقات کے بعد، افغان امن کونسل کے ارکان ملا برادر سے ملاقات کرنے پاکستان جانے کا ارادہ رکھتے ہیں، اور آنے والے چند ہفتوں میں وزیر اعظم نواز شریف کے کابل کے دورے کا بھی پروگرام بتایا جاتا ہے۔

دونوں ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کے درمیان مبینہ سرد جنگ کے سائے میں ان سویلین حکمرانوں کی ملاقاتوں اور دوروں کی اہمیت کیا ہے اور یہ افغان بحران کے ممکنہ حل پر کس طرح اثرانداز ہو سکتے ہیں، اس کا جواب آنے والا وقت ہی دے سکتا ہے۔

تاہم، 2014ء میں امریکہ اور اتحادی افواج کے افغانستان سے طے شدہ انخلا کے بعد کی کے پس منظر میں اِس تمام صورتِ حال کو دفاعی اور سیاسی تجزیہ کار گہری نگاہ سے دیکھ رہے ہیں، کیونکہ اس پر ہی علاقے کا آئندہ منظر نامہ ترتیب پائے گا۔