مدیحہ گوہر اجوکہ تھیٹرز کی روح رواں ہیں۔ اُنہوں نے ایک خصوصی ملاقات میں وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُن کا تھیٹر گروپ ضیاء الحق کے دور سے پاکستانی ثقافت کو اُجاگر کرنے کی کوششیں کررہا ہے اور اس مشن میں اُن کے گروپ کو مسلسل مزاحمت کا سامنا رہا ہے۔ مدیحہ گوہر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عظیم تاریخی اور ثقافتی ورثے کو اُجاگر کرنے کی اُن کی کوششوں کا ایک حصہ یہ وراثت تھیٹر فیسٹیول ہے جس کے تحت چار اسٹیج ڈرامے آج کل الحمرا لاھور کی سٹیج پر پیش کیے جارہے ہیں۔ ان میں پہلا ڈرامہ ًبلھاً ہے۔
یہ اجوکہ تھیٹر کا سب سے مشہور سٹیج ڈرامہ ہے جس میں پنجاب کے عظیم صوفی شاعر بلھے شاہ کی اپنے دور کے مذہبی قدامت پسندوں کے خلاف جدوجہد پیش کی گئی ہے۔ امن، برداشت اور انسانیت کے بلھے شاہ کے پیغام کو اس ڈرامے میں اس انداز سے پیش کیا گیا ہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں اس پیغام کی ضرورت واضح ہوتی ہے۔
مدیحہ گوہر کا کہنا ہے کہ اس ڈرامے کی وساطت سے ہمارے عوام پر بابا بلھے شاہ کا پیغام واضح ہوتا ہے۔ وراثت فیسٹیول کا دوسرا ڈرامہ ً راجہ رسالوً ہے۔ یہ قدیم لوک کہانی پر مبنی ڈرامہ ہے جس کا تعلق پرانے وقتوں کے سیالکوٹ کے راجا سے ہے۔ اس راجہ کے دو بیٹے پورن بھگت اور راجا رسالو تھے۔ ان دونوں سے منسوب واقعات اس ڈرامے میں پیش کئے گئے ہیں۔
اس فیسٹیول کا تیسرا ڈرامہ ً دُ کھ دریا ً ہے۔ یہ ایک کشمیری عورت کی کہانی ہے جس کو بانجھ پن کے طعنے دریا میں چھلانگ لگا کر خود کشی کرنے پر مجبور کردیتے ہیں مگر وہ بچ جاتی ہے اور سرحد کی دوسری جانب گرفتار ہوجاتی ہے۔ اس گرفتاری کے دوران اُس کی آبروریزی بھی ہوتی ہے جس کے نتیجے میں وہ حاملہ ہوجاتی ہے اور جیل میں ایک بچی کو جنم دیتی ہے۔ بعد میں جب اُس کو رہا کیا جاتا ہے تو اس کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی بچی کو اپنے ساتھ اپنے ملک واپس نہیں لے جاسکتی ۔ اس داستان کے حوالے سے مدیحہ گوہر کے بقول تقسیم ہند کے دوران عام لوگوں نے جو دُ کھ اُٹھائے اُن کا بھی آج کے دور میں رہنے والے اندازہ کرسکتے ہیں۔
چوتھا ڈرامہ ًدارا ً مغل دور کی کہانی ہے۔ یہ شاہجہان کے بڑے بیٹے داراشکوہ سے متعلق ہے جو ایک صوفی منش آدمی تھا مگر شاہجہان کی طرف سے تخت کا وارث بنا دیا گیا تھا۔ ڈرامے میں داراشکوہ سچ کی تلاش میں صوفیوں کے پیچھے پھرتا ہے۔ داراشکوہ کی معروف تصنیفات، سکینہ اولیاء ، سفینہ اولیاء اور مجمع البحرین کا پسِ منظر بھی اس ڈرامے میں شائقین کو دیکھنے میں ملتا ہے اور پھر اپنے چھوٹے بھائی اورنگ زیب کے ہاتھوں اُن کے قتل ہونے کا المیہ بھی اس ڈرامے کا حصہ ہے۔
مدیحہ گوہر نے بتایا کہ اُن کا تھیٹر گروپ انتہائی نامساعد حالات میں کام کررہا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ انتہا پسندوں کی طرف سے اُن کو قتل کی دھمکیاں بھی مل چکی ہیں۔ اُن کے خیال میں آج کل ان ثقافتی سرگرمیوں کو آگے بڑھانا ضیاء دور میں ثقافتی کام کرنے سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔ تاہم اُنہوں نے اس اُمید کا اظہار کیا کہ پاکستانیوں کی اکثریت ، جو اُن کے بقول اُن کی ہم خیال ہے ، انتہا پسندوں کے خوف سے ایک نہ ایک دن ضرور باہر نکل آئے گی اور بلھے شاہ جیسے صوفیوں نے علم کی جو صحیح روشنی پھیلائی وہ لوگوں تک پہنچےگی اور اُن کی زندگیوں کے لیے مشعلِ راہ بنے گی۔
اجوکہ تھیٹرز کا یہ وراثت فیسٹیول لاہور میں 23 اکتوبر کو ختم ہورہا ہے اور اسی فیسٹیول کے تین ڈرامے راجا رسالو، بلھا اور دارا اُنتیس، تیس اور اکتیس اکتوبر کو پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اسلام آباد کی نیشنل آرٹ گیلیری میں پیش کئے جائیں گے۔