اس سال، علی گڑھ مشاعرے میں بھارت سے معروف شاعر اور قومی کونسل برائے فروغ ِ اردو زبان کے وائس چئیرمین وسیم بریلوی جبکہ پاکستان سے معروف شاعر اور معلّم پیرزادہ قاسم اور زاہد فخری کو مدعو کیا گیا تھا۔
جب 60ء اور 70ء کی دہائی میں پاکستان اور ہندوستان سے لوگ امریکہ آکر بسنا آباد ہوئے تو اگلا مرحلہ اس کمیونٹی کو اکٹھا کرنے اور اپنی روایات سے جوڑنے کے لیے کوئی سبیل نکالنے کا تھا۔ ایسے میں کمیونٹی کے چند سرکردہ افراد اکٹھے مل بیٹھے اور انہوں نے واشنگٹن ڈی سی میں 1975ء میں علی گڑھ المنائی ایسوسی ایشن قائم کی۔
علی گڑھ المنائی ایسوسی ایشن گذشتہ 38 برسوں سے اُردو مشاعرے کی روایت قائم رکھے ہوئے ہے۔ ہر برس علی گڑھ ایسوسی ایشن کی جانب سے پاکستان اور بھارت سے نامور اردو شعراء کو مدعو کیا جاتا ہے۔
اس سال، علی گڑھ مشاعرے میں بھارت سے معروف شاعر اور قومی کونسل برائے فروغ ِ اردو زبان کے وائس چئیرمین وسیم بریلوی جبکہ پاکستان سے معروف شاعر اور معلّم پیرزادہ قاسم اور زاہد فخری کو مدعو کیا گیا تھا۔ پاکستان سے خاتون شاعرہ نگہت افتخار بھی پہلی مرتبہ علی گڑھ مشاعرے کا حصہ بنیں۔
پاکستان سے تشریف لانے والے پیرزادہ قاسم نے اس مشاعرے کی صدارت کے فرائض سر انجام دئیے۔
مشاعرے کی نظامت کے فرائض ہمیشہ کی طرح ڈاکٹر عبداللہ نے ادا کیے، جن کا کہنا تھا کہ، ’علی گڑھ المنائی ایسوسی ایشن نے مشاعرے کو تسلسل دیا اور اہل ِ واشنگٹن نے اسے ایک اکائی دی‘۔
واشنگٹن میں علی گڑھ ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر رضی الدین نے تنظیم کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ مشاعرے کا انعقاد واشنگٹن کی ایک خُوش کن روایت بن چکی ہے جبکہ علی گڑھ المنائی ایسوسی ایشن چندہ اکٹھا کرکے بھارت میں مختلف فلاحی سرگرمیوں میں خرچ کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر برس بہت سے طالبعلموں کو تعلیمی اخراجات کی مد میں سکالر شپس مہیا کیے جاتے ہیں۔
علی گڑھ کے خوبصورت ترانے کے بعد امریکہ سے تعلق رکھنے والے مقامی شعراء سے مشاعرے کے پہلے دور کا آغاز کیا گیا۔ شمالی امریکہ سے تعلق رکھنے والے فیاض الدین صائب، صبیحہ صبا، فرحت شہزاد اور رفیع الدین راز مشاعرے کا حصہ تھے۔ مقامی شعراء کے بعد مہمان شعراء نے بھی مختصراً کلام پڑھا۔
اگلا دور مہمان شعراء کے لیے مختص تھا۔ زاہد فخری نے اپنی مشہور پنجابی نطم ’کدی تے پیکے جا نی بیگم‘ سنائی اور سامعین کو محظوظ کیا۔ جبکہ ان کی مشہورِ زمانہ غزل نے بھی سماں باندھ دیا۔
زاہد فخری کی غزل کے دو اشعار:
وہ ملا تو صدیوں بعد بھی، میرے لب پہ کوئی گلہ نہ تھا
اسے میری چپ نے رلا دیا، جسے گفتگو میں کمال تھا
میرے ساتھ لگ کے وہ رو دیا، مجھے فخری اتنا ہی کہہ سکا
جسے جانتا تھا میں زندگی، وہ تو صرف وہم و خیال تھا
وسیم بریلوی نے جو دنیا بھر میں اپنے منفرد اسلوب ِ غزل کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں، غزلیں اور گیت سنا کر حاضرین کے دل موہ لیے۔
وسیم بریلوی کے چند اشعار:
کونسی بات کہاں کیسے کہی جاتی ہے
یہ سلیقہ ہو تو ہر بات سنی جاتی ہے
ایک بگڑی ہوئی اولاد بھلا کیا جانے
کیسے ماں باپ کے ہونٹوں سے ہنسی جاتی ہے
مشاعرے کے صدر پیرزادہ قاسم کی غزل نے تو جیسے حاضرین کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔
اب حرف ِ تمنا کو سماعت نہ ملے گی
بیچو گے اگر خواب تو قیمت نہ ملے گی
لمحوں کے تعاقب میں گزر جائیں گی صدیاں
یوں وقت تو مل جائے گا مہلت نہ ملے گی
اسی کے ساتھ، مشاعرے کا اختتام کر دیا گیا، مگر یہ تشنگی برقرار رہی کہ مہمان شعراء کو سننے کے لیے وقت زیادہ ہونا چاہیئے تھا۔
علی گڑھ المنائی ایسوسی ایشن گذشتہ 38 برسوں سے اُردو مشاعرے کی روایت قائم رکھے ہوئے ہے۔ ہر برس علی گڑھ ایسوسی ایشن کی جانب سے پاکستان اور بھارت سے نامور اردو شعراء کو مدعو کیا جاتا ہے۔
اس سال، علی گڑھ مشاعرے میں بھارت سے معروف شاعر اور قومی کونسل برائے فروغ ِ اردو زبان کے وائس چئیرمین وسیم بریلوی جبکہ پاکستان سے معروف شاعر اور معلّم پیرزادہ قاسم اور زاہد فخری کو مدعو کیا گیا تھا۔ پاکستان سے خاتون شاعرہ نگہت افتخار بھی پہلی مرتبہ علی گڑھ مشاعرے کا حصہ بنیں۔
پاکستان سے تشریف لانے والے پیرزادہ قاسم نے اس مشاعرے کی صدارت کے فرائض سر انجام دئیے۔
مشاعرے کی نظامت کے فرائض ہمیشہ کی طرح ڈاکٹر عبداللہ نے ادا کیے، جن کا کہنا تھا کہ، ’علی گڑھ المنائی ایسوسی ایشن نے مشاعرے کو تسلسل دیا اور اہل ِ واشنگٹن نے اسے ایک اکائی دی‘۔
واشنگٹن میں علی گڑھ ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر رضی الدین نے تنظیم کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ مشاعرے کا انعقاد واشنگٹن کی ایک خُوش کن روایت بن چکی ہے جبکہ علی گڑھ المنائی ایسوسی ایشن چندہ اکٹھا کرکے بھارت میں مختلف فلاحی سرگرمیوں میں خرچ کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر برس بہت سے طالبعلموں کو تعلیمی اخراجات کی مد میں سکالر شپس مہیا کیے جاتے ہیں۔
علی گڑھ کے خوبصورت ترانے کے بعد امریکہ سے تعلق رکھنے والے مقامی شعراء سے مشاعرے کے پہلے دور کا آغاز کیا گیا۔ شمالی امریکہ سے تعلق رکھنے والے فیاض الدین صائب، صبیحہ صبا، فرحت شہزاد اور رفیع الدین راز مشاعرے کا حصہ تھے۔ مقامی شعراء کے بعد مہمان شعراء نے بھی مختصراً کلام پڑھا۔
اگلا دور مہمان شعراء کے لیے مختص تھا۔ زاہد فخری نے اپنی مشہور پنجابی نطم ’کدی تے پیکے جا نی بیگم‘ سنائی اور سامعین کو محظوظ کیا۔ جبکہ ان کی مشہورِ زمانہ غزل نے بھی سماں باندھ دیا۔
زاہد فخری کی غزل کے دو اشعار:
وہ ملا تو صدیوں بعد بھی، میرے لب پہ کوئی گلہ نہ تھا
اسے میری چپ نے رلا دیا، جسے گفتگو میں کمال تھا
میرے ساتھ لگ کے وہ رو دیا، مجھے فخری اتنا ہی کہہ سکا
جسے جانتا تھا میں زندگی، وہ تو صرف وہم و خیال تھا
وسیم بریلوی نے جو دنیا بھر میں اپنے منفرد اسلوب ِ غزل کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں، غزلیں اور گیت سنا کر حاضرین کے دل موہ لیے۔
وسیم بریلوی کے چند اشعار:
کونسی بات کہاں کیسے کہی جاتی ہے
یہ سلیقہ ہو تو ہر بات سنی جاتی ہے
ایک بگڑی ہوئی اولاد بھلا کیا جانے
کیسے ماں باپ کے ہونٹوں سے ہنسی جاتی ہے
مشاعرے کے صدر پیرزادہ قاسم کی غزل نے تو جیسے حاضرین کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔
اب حرف ِ تمنا کو سماعت نہ ملے گی
بیچو گے اگر خواب تو قیمت نہ ملے گی
لمحوں کے تعاقب میں گزر جائیں گی صدیاں
یوں وقت تو مل جائے گا مہلت نہ ملے گی
اسی کے ساتھ، مشاعرے کا اختتام کر دیا گیا، مگر یہ تشنگی برقرار رہی کہ مہمان شعراء کو سننے کے لیے وقت زیادہ ہونا چاہیئے تھا۔